جب خدا زمین پر اتر آیا

1:48:00 PM Amad Ahmad 0 Comments



داستان ایمان فروشوں کی
جلد سوم
قسط نمبر 90
جب خدا زمین پر اتر آیا
مصر میں جہاں آج اسوان ڈیم ہے، آٹھ سو سال پہلے وہاں ایک خونریز معرکہ لڑا گیا تھا۔ مورخوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور کی اس لڑائی کا ذکر کیا ہی نہیں اگر کیا ہے تو اتنا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کا ایک جرنیل باغی ہوگیا تھا۔ قاضی بہائوالدین شداد نے اپنی ڈائری میں اس جرنیل کا نام بھی لکھا ہے۔ نام القنض تھا جس کا تلفظ القند ہے۔ وہ مصری مسلمان تھا۔ اس کی ماں سوڈانی تھی۔ شاید یہ سوڈانی خون تھا جس نے اسے سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف بغاوت پر اکسایا تھا۔ اس دور کے وقائع نگاروں اور کاتبوں کی غیر مطبوعہ تحریریں ملی ہیں، ان سے اس بغاوت کا پس منظر خاصی حد تک واضح ہوجاتا ہے۔
یہ ١١٧٤ء کے آخر اور ١١٧٥ء کے اوائل کا عرصہ تھا جب سلطان صلاح الدین ایوبی مصر سے غیرحاضر تھا۔ اس سے پہلے پوری تفصیل سے سنایا جاچکا ہے کہ نورالدین زنگی مرحوم کی وفات کے فوراً بعد شام کے حالات اس صورت میں بگڑ گئے تھے کہ مفادپرست امراء نے زنگی مرحوم کے گیارہ سالہ بیٹے کو سلطنت کی گدی پر بٹھا دیا اور صلیبیوں سے گٹھ جوڑ کرکے خود مختاری کے راستے پر چل پڑے تھے۔ سلطنت اسلامیہ ٹکڑے ٹکڑے ہوکر صلیبیوں کے پیٹ میں جارہی تھی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی دمشق پہنچا۔ تھوڑی سی معرکہ آرائی اور دمشق کے شہریوں کے تعاون سے اس نے دمشق پر قبضہ کرلیا۔ خلیفہ اور اس کے حواری امراء اور جرنیل حلب کو بھاگ گئے جہاں انہوں نے صلیبیوں سے جنگی مدد حاصل کی۔ صلیبیوں نے مدد کا جھانسہ دے کر مسلمان فوج کو مسلمان فوج سے ٹکرا دیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے حمص اور حماة کے قلعے سرکرلیے۔ حلب کے محاصرے میں اسے غیرمتوقع مزاحمت کا سامنا ہوا۔ اس کے ساتھ ہی تریپولی کے صلیبی حکمران ریمانڈ نے حملہ کردیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کو حلب کا محاصرہ اٹھا کر پیچھے آنا پڑا تاکہ صلیبی فوج کو راستے میں روکا جاسکے۔
سلطان صلاح الدین ایوبی کے دستوں کی برق رفتاری نے اس کی چال کو کامیاب کیا اور ریمانڈ لڑائی سے منہ پھیر گیا مگر یہاں لڑائی ختم نہیں ہوئی تھی۔ اصل جنگ تو یہیں سے شروع ہوئی تھی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی الرستان سلسلہ کوہ میں اپنی فوج کو پھیلائے ہوئے تھا۔ اس کا مقابلہ تین دشمنوں کے ساتھ تھا۔ ایک الصالح اور اس کے حواری امراء کی فوج تھی، دوسرے صلیبی فوج اور تیسرا موسم۔ یہ جنوری فروری ١١٧٥ء کے دن تھے جب پہاڑیوں کی چوٹیاں برف سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ یخ جھکڑ چلتے تھے اور وادیاں ٹھٹھر رہی تھیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی وہاں اس طرح الجھ گیا تھا جیسے زنجیروں میں جکڑا گیا ہو۔
مصر کے متعلق وہ مطمئن نہیں تھا۔ وہاں کی فوج کی کمان وہ اپنے بھائی العادل کے سپرد کرآیا تھا۔ اس فوج میں سے سلطان صلاح الدین ایوبی نے کمک بھی منگوالی تھی۔ مصر پر سمندر کی طرف سے صلیبیوں کا اور جنوب سے سوڈانیوں کے حملے کا خطرہ تو تھا لیکن زیادہ خطرہ صلیبیوں اور سوڈانیوں کی زمین دوز تخریب کاری کا تھا جو مصر میں جاری تھی۔ دشمن کی جاسوسی اور تخریب کاری کو بہت حد تک دبایا جاچکا تھا مگر یہ کہنا غلط تھا کہ دشمن اس زمین دوز میدان سے بھاگ گیا ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے انہی خطروں سے نبردآزما ہونے کے لیے اپنی انٹیلی جنس کے ماہر سربراہ علی بن سفیان کو قاہرہ میں رہنے دیا تھا۔ اس نے العادل کو بھی اس ضمن میں بہت سی ہدایات دے دی تھیں مگر جو جگہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی غیرحاضری سے خالی ہوگئی تھی۔ اسے العادل اور علی بن سفیان مل کر بھی پر نہیں کرسکتے تھے۔
مصر کی سرحدوں اور ساحل کی دیکھ بھال کے لیے سرحدی دستوں کی چوکیاں اور ان کے پہرے تھے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے العادل کے متعلق یہ حکم دے دیا تھا کہ سوڈانی سرحد پر ذرا سی بھی گڑ بڑ کریں تو شدید جنگی نوعیت کی جوابی کارروائی کرو اور سوڈان کے اندر جا کر لڑو… مگر ایک ضرورت ایسی تھی جس کی طرف کسی نے بھی توجہ نہ دی۔ یہ تھی سرحدی دستوں کی بدلی۔ ان دستوں میں بیشتر سپاہی اور بعض کمانڈر ایسے تھے جو دو سال سے زیادہ عرصہ سے سرحد کی ڈیوٹی پر تھے۔ یہ وہ سپاہی تھے جنہوں نے دشمن سے معرکے لڑے تھے لہٰذا ان کے دلوں میں دشمن کے خلاف نفرت بھری ہوئی تھی۔ سوڈانیوں کو تو وہ کچھ سمجھتے ہی نہیں تھے۔ ان سے پہلے جو دستے سرحد پر تھے وہ اچھے ثابت نہیں ہوئے تھے۔ ان کی موجودگی میں مصر کی منڈی سے اناج اور دیگر ضروری اشیاء سمگل ہوکر سوڈان چلی جاتی تھیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے محاذ سے واپس آکر ان دستوں کو بدل دیا اور وہ دستے بھیجے تھے جو محاذ سے آئے تھے۔ ان دستوں نے سرحد پر پہنچ کر اودھم بپا کردیا تھا۔ گشتی پہرے والوں کو کوئی چیز ہلتی نظر آتی تھی تو اسے جادبوچتے تھے۔ وہ تیز رفتار تھے اور ان کی نظریں عقابی تھیں۔ انہوں نے سرحد صحیح معنوں میں سربمہر اور مقفل کردی تھی۔
یہ دو اڑھائی سال پہلے کی بات تھی۔ ابتداء میں ان دستوں میں جوش اور جذبہ تھا اور کرنے کو ایک کام بھی تھا جو ایک مہم تھی۔ وہ جانفشانی سے اس میں مگن رہے۔ چند مہینوں میں ہی انہوں نے یہ مہم سرکرلی اور فارغ ہوگئے۔ یہ فراغت ان کے جذبے کو دیمک کی طرح کھانے لگی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی ہر پہلو، ہر گوشے اور ہر عنصر پر نظر رکھتا تھا لیکن سرحدی دستوں کی بدلی اتنی معمولی سی بات تھی جس پر وہ ذاتی توجہ نہ دے سکا۔ سرحدی دستوں کا شعبہ الگ تھا جس کا کمانڈر سالار (جرنیل) کے عہدے کا ایک فرد تھا ور یہ القند تھا۔ یہ اس کے فرائض میں شامل تھا کہ وہ سال میں تین بار نہیں تو دوبار سرحدی دستوں کی بدلی کرتارہتا۔ اس نے یہ بے حد ضروری کارروائی نہ کی۔ اس کوتاہی کے اثرات سامنے آنے لگے۔
سپاہی ایک ہی قسم کے ماحول اور فضا میں اور ایک ہی قسم کی زمین پر رہتے اور پہرے دیتے اکتاہٹ محسوس کرنے لگے۔ سوڈان خاموش تھا۔ سمگلنگ بند ہوچکی تھی۔ فراغت اور کاہلی سپاہیوں کی نفسیات پر تخریبی اثرات ڈال رہی تھی۔ اس کے لیے کام بھی نہیں تھا اور ان کے لیے تفریح بھی کوئی نہیں تھی۔ موسم میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آتی تھی۔ ریت کا سمندر اور ریت کے ٹیلے ایک ہی جیسے تھے جیسے صدیوں سے چلے آرہے تھے۔ آسمان کا رنگ ایک ہی جیسا رہتا تھا۔ اس کیفیت اور سپاہیوں کی اکتاہٹ کا پہلا اثر یہ دیکھنے میں آیا کہ وہ گشتی پہرے پر جاتے تو راہ جاتے مسافروں سے یہ پوچھنے کے بجائے کہ وہ کون ہیں اور کہاں جارہے ہیں اور ان کے پاس کیا ہے، وہ انہیں روک کر ان سے گپ شپ لگاتے اور ان سے ادھر ادھر کی باتیں پوچھتے۔ یہ دل بہلانے کا ایک ذریعہ تھا۔
جن چوکیوں کی ذمہ داری کے علاقے میں کوئی گائوں تھا، سپاہی وہاں چلے جاتے اور گپ بازی سے دل بہلا آتے۔ سرحد کے رکھوالوں کا یہ انداز ملک کے لیے خطرناک تھا مگر وہ سپاہی تھے اور اکتائے ہوئے بھی تھے۔ انسانی فطرت کا تقاضہ تھا کہ وہ کہیں نہ کہیں سے تسکین حاصل کرتے۔ وہاں آتے جاتے مسافر تھے، رات بھر کے لیے پڑائو کرنے والے قافلے تھے یا کہیں کوئی آباد گائوں تھا۔ وہ ہر کسی کے ساتھ گھل مل گئے۔ مصر کے سرحدی لوگوں پر ان کا جو ڈر تھا وہ دور ہوگیا۔ ان کے کمانڈر بھی سپاہیوں جیسے ہی انسان تھے۔ وہ بھی وقت گزارنے کے اور تفریح کے ذرائع ڈھونڈنے لگے تھے۔
٭ ٭ ٭
جب سلطان صلاح الدین ایوبی دمشق کے لیے روانہ ہونے لگا تو اتنی عجلت میں تھا کہ سرحدوں کے متعلق تمام تر ہدایات دینے کے باوجود اس کے ذہن میں یہ نہ آئی کہ پرانے دستوں کی بدلی کے احکام بھی دے دیتا۔ اسے غالباً اطمینان ہوگا کہ ان کا کمانڈر، القند تمام تر ضروریات پوری کرتا رہتا ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے جانے کے بعد العادل نے فوجوں کی کمان لی تو اس نے القند سے پوچھا کہ سرحد پر جو دستے ہیں وہ کب سے اس ڈیوٹی پر ہیں۔ القند نے جواب دیا کہ وہ بہت عرصے سے وہیں ہیں۔
''کیا سرحد پرمزید دستے بھیجنے کی ضرورت ہے؟'' العادل نے پوچھا… ''اور کیا پرانے دستوں کو قاہرہ بلا کر نئے دستے بھیجنے کی ضرورت ہے؟''
''نہیں'' القند نے جواب دیا… ''یہی وہ دستے ہیں جنہوں نے ملک سے اناج، مویشی اورہتھیار وغیرہ کے چوری چھپے باہر جانے کو روکا تھا۔ وہ اب سرحد اور ارگرد کے علاقوں کے عادی ہوگئے ہیں۔ وہ اب دور سے مشتبہ انسان کی بو سونگھ کر اسے پکڑ لیتے ہیں۔ ان کی جگہ اگر نئے دستے بھیجے گئے تو پرانے دستوں جیسا تجربہ حاصل کرتے انہیں ایک سال سے زیادہ عرصہ چاہیے۔ ہمیں ایسا خطرہ مول نہیں لینا چاہیے''۔
العادل اس جواب سے مطمئن ہوگیا تھا۔ اسے بتانے والا کوئی نہ تھا کہ یہی القند رات کو اپنے گھر میں بیٹھا کہہ رہا تھا۔ ''یہ سرحدی دستے بیکار ہوچکے ہیں، میری یہ کوشش کامیاب ہے کہ میں نے ان کی بدلی نہیں ہونے دی۔ انہوں نے سرحد کے لوگوں کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات پیدا کرلیے ہیں۔ ان کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ ان کے پیٹ تو بھرے رہتے ہیں، کھانے پینے کی انہیں کوئی شکایت نہیں، میں ان کے لیے ضرورت سے زیادہ خوراک بھیجتا ہوں لیکن ان کی حالت بھوکے بھیڑیوں کی سی ہوگئی ہے۔ کوئی قافلہ گزرتا ہے تو وہ قافلے والوں کی عورتوں کو منہ کھول کر دیکھتے رہتے ہیں۔ اب ہم اپنا کام کرسکتے ہیں''۔
وہ جس کے ساتھ باتیں کررہا تھا وہ کوئی سوڈانی تھا جو اس کے ہاں مہمان کے روپ میں آیا ہوا تھا۔ وہ سوڈان سے اس کے لیے تحفے لایا تھا اور ان تحفوں کے ساتھ ایک پیغام بھی تھا۔ اس نے القند کو بتایا تھا کہ سوڈانی تیار ہیں مگر نفری ابھی اتنی زیادہ نہیں ہوئی۔ یہ آدمی پیغام لے کر آیا تھا کہ اس نفری کو کسی طرح مصر میں داخل کرکے چھپا لیا جائے۔ اس کے لیے پہلی مشکل یہ تھی کہ انہیں سرحد پار کس طرح کرائی جائے۔ اسی کے جواب میں القند نے کہا تھا کہ مصر کے سرحدی دستے بیکار ہوچکے ہیں… القند ان چند ایک سالاروں میں سے تھا جن پر سلطان صلاح الدین ایوبی کو بھروسہ تھا۔ القند نے کبھی شک بھی نہیں ہونے دیا تھا کہ وہ مصر کی امارت کا وفادار نہیں۔علی بن سفیان تک کو اس نے دھوکے میں رکھا ہوا تھا۔ اس کا یہ کارنامہ کہ اس نے دو اڑھائی سال پہلے سمگلنگ روک دی اور سرحدیں سربمہر کردی تھیں۔ اسے بہت فائدہ دے رہا تھا۔ کوئی بھی نہ جان سکا کہ وہ سرحدوں کا بھیدی بن چکا ہے۔
اب سلطان صلاح الدین ایوبی مصر سے چلا گیا تو القند نے العادل کو یقین دلا دیا کہ وہ سوڈان کی طرف سے بے فکر ہوجائے۔ سوڈان کا کوئی پرندہ بھی مصر میں داخل نہیں ہوسکتا۔ ایسا ہی یقین وہ علی بن سفیان کو بھی دلاتا رہا اور سوڈان میں حبشیوں کی ایک فوج مصر پر اس انداز سے حملہ کرنے کے لیے تیار ہوتی رہی کہ حبشی چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میںمصر میں داخل ہوں گے، چوری چھپے قاہرہ کے قریب جائیں گے اور ایک رات حملہ کرکے رات ہی رات مصر کی امارات کو قبضے میں لے لیں گے۔
٭ ٭ ٭
دریائے نیل سوڈان سے گزرتا مصر میں داخل ہوتا ہے۔ آگے مصر کے علاقے میں ایک وسیع جھیل کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ اس کے آگے ایسے علاقے میں داخل ہوتا ہے جو پہاڑی ہے۔ اس سے آگے آبشار کی طرح گرتا ہے۔ اس کے قریب اسوان ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور میں اسوان کے گردونواح کی جغرافیائی کیفیت کچھ اور تھی۔ دور دور تک چٹانیں اور پہاڑیاں تھیں۔ ان پر فرعونوں کی خصوصی نظر کرم رہی تھی۔ انہوں نے پہاڑوں کو تراش تراش کر بت بتائے تھے۔ ان میں سب سے بڑے بت ابو سمبل کے تھے۔ بعض چٹانوں کی چوٹیاں تراش کر کسی معبدے گنبد کی شکل کی یا کسی فرعون کا چہرہ بنا دی گئی تھیں۔ پہاڑیوں کے دامن میں غاریں بنائی گئی تھیں جو اندر سے وسیع وعریض تھیں۔ کچھ ایسی تھیں جن کے اندر کمرے، سرنگوں جیسے راستے اور بھول بھلیاں سی بنا دی گئی تھیں۔
کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ فرعونوں نے یہ پراسرار سی دنیا کیوں آباد کی تھی۔ یہ بت تراشتے اور غاریں کھود کر اندر کمرے وغیرہ بناتے تین نسلیں ختم ہوگئی ہوں گی۔ فرعون اس دور کے ''خدا'' تھے۔ رعایا کا کام صرف یہ تھا کہ ان کے آگے سجدے کرے اور ان کا ہر حکم بجا لائے۔ یہ پہاڑ اسی مظلوم اور فاقہ کش رعایا سے کٹوائے گئے تھے۔ آج وہاں کوئی بت نہیں، کوئی غار نہیں، کوئی پہاڑ نہیں۔ وہاں اسوان ڈیم کی میل ہا میل وسیع جھیل ہے۔ اس ڈیم کی تعمیر سے پہلے ابوسمبل کے اتنے بڑے بڑے بت جو بجائے خود پہاڑ تھے مشینری سے وہاں سے اٹھائے گئے اور فرعونوں کے دور کی یادگاروں کے طور پر کہیں محفوظ کرلیے گئے ہیں۔ ڈائنامیٹ سے پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرکے زمین بوس کردیا گیا تھا۔ اگر فرعون انسان کے ہاتھوں پہاڑوں کو یوں اڑاتا اور زمین سے ملتا دیکھتے تو خدائی کے دعوے سے دستبردار ہوجاتے۔
سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور میں اس علاقے کے خدوخال کچھ اور تھے۔ ان پہاڑوں کی وادیوں اور غاروں میں ساری دنیا کی فوج کو چھپایا جاسکتا تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے ذاتی طور پر سرحد کے اس علاقے پر زیادہ توجہ دی تھی جہاں سے دریائے نیل مصر میں داخل ہوتا تھا۔ سوڈانی کشتیوں کے دریعے مصر میں داخل ہوسکتے تھے۔ اس دریائی راستے پر نظر رکھنے کے لیے ایک چوکی قائم کی گئی تھی جو دریا سے دور تھی۔ چوکی سے دریا نظر نہیں آتا تھا اور دریا سے چوکی نظر نہیں آتی تھی۔ یہ فاصلہ دانستہ رکھا گیا تھا تاکہ دریا سے چوری چھپے گزرنے والے اس خوش فہمی میں مبتلا رہیں کہ انہیں دیکھنے اور پکڑنے والا کوئی نہیں۔ دریا پر گشتی پہرے کے ذریعے نظر رکھی جاتی تھی۔ دو گھوڑ سوار ہر وقت گشت پر رہتے تھے اور ان کی ڈیوٹی بدلتی رہتی تھی۔
مصر سے سلطان صلاح الدین ایوبی کی غیر حاضری کے دنوںکا واقعہ ہے کہ دن کے وقت دریا کی دیکھ بھال والی سرحدی چوکی کے دو گھوڑ سوار گشت پر نکلے اور معمول کے مطابق دور تک نکل گئے۔ ایک جگہ دریا کے کنارے سبزہ زار تھا۔ سایہ دار درخت تھے اور یہ جگہ بہت ہی خوبصورت تھی۔ گشت والے سنتری اس جگہ آکر آرام کیا کرتے تھے۔ ایک عرصہ سے انہوں نے کسی سوڈانی کو دریا سے آتے نہیں دیکھا تھا۔ ابتداء میں انہوں نے بہت سے آدمی پکڑے تھے جن میں بعض تخریب کار اور جاسوس تھے۔ اس کے بعد یہ دریائی راستہ ویران ہوگیا تھا۔ اب سنتری صرف ڈیوٹی پوری کرنے آتے اور چوکی کی نظروں سے اوجھل ہوکر بیٹھ جاتے تھے۔
ان دوسواروں کا بھی ہی یہ معمول تھا۔ اس معمول سے اب وہ تنگ آگئے تھے۔ دریا کے کنارے اتنی سرسبز جگہ بھی انہیں اچھی نہیں لگتی تھی۔ ہر روز دریا کو دیکھ دیکھ کر وہ اس کے حسن سے اکتا گئے تھے۔ یہاں انہیں باہر کی دنیا کی اگر کوئی چیز نظر آتی بھی تھی تو وہ صحرائی لومڑی تھی جو دریا سے پانی پیتی اور سنتریوں کو دیکھ کر بھاگ جاتی تھی یا ماہی گیروں کی ایک آدھ کشتی نظر آتی تھی۔ وہ ماہی گیروں سے پوچھتے کہ وہ کہاں کے رہنے والے ہیں۔ پھر انہوں نے یہ پوچھنا بھی بھی چھوڑ دیا تھا اور اس کے بعد ماہی گیروں نے بھی وہاں جانا چھوڑ دیا تھا… اس رورز وہ سنتری گشت کے علاقے میں گئے تو وہ اکتائی ہوئی سی باتیں کررہے تھے۔ جن کا لب لباب یہ تھا کہ اس کے ساتھی قاہرہ، سکندریہ اور دوسرے شہروں میں عیش کررہے ہیں اور وہ اس جنگل بیابان میں پڑے ہیں۔ ان کے لب ولہجے میں احتجاج تھا اور بے اطمینانی بھی۔
وہ اس سرسبز جگہ سے کچھ دور تھے تو انہیں وہاں چار پانچ اونٹ بندھے ہوئے نظر آئے۔ آٹھ دس آدمی بیٹھے ہوئے تھے اور چار آدمی دریا میں نہا رہے تھے۔ دونوں سوار آگے چلے گئے مگر رک گئے۔ وہ کوئی انسان نہیں ہوسکتے تھے۔ انہیں جس چیز نے حیرت سے زیادہ خوف میں مبتلا کردیا تھا وہ یہ تھی کہ دریا میں چار آدمی نہیں بلکہ چار جوان لڑکیاں نہا رہی تھیں۔ انہوں نے ستر باریک کپڑوں سے ڈھانپے ہوئے تھے، وہ دریا میں اس جگہ ڈبکیاں لگا رہی تھیں جہاں پانی ان کی کمر تک تھا۔ ان کے جسموں کے رنگ مصریوں کی نسبت زیادہ ستھرے اور جاذب تھے۔ وہ قہقہے لگارہی تھیں، گھوڑ سوار یہ سمجھ کر ڈر گئے کہ یہ جل پریاں ہیں یا آسمان سے اتاری ہوئی پریاں یا فرعونوں کی شہزادیوں کی بدروحیں وہ دونوں رکے رہے اور انہیں دیکھتے رہے۔ انہوں نے وہیں سے واپسی کا ارادہ کرلیا لیکن جو آدمی بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے ان کی طرف دیکھا۔
دو آدمی اٹھ کر ان کی طرف آئے۔ لڑکیوں نے بھی انہیں دیکھ لیا تھا۔ وہ چاروں دریا سے نکل کر کنارے کی خشک اوٹ میں چلی گئیں۔ گھوڑ سواروں کا خوف ذرا کم ہوا۔ وہ آخر فوجی تھے۔ قریب جاکر انہوں نے ان دو آدمیوں سے پوچھا کہ وہ کون ہیں اور یہاں کیا کررہے ہیں۔ دونوں آدمیوں نے جھک کر سلام کیا۔ وہ صحرائی لباس میں تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ قاہرہ کے تاجر ہیں، بہت سے سرحدی دیہات میں مال فروخت کرکے واپس جارہے ہیں۔
''قاہرہ جانے کا یہ راستہ تو نہیں''۔ ایک سوار نے کہا۔
''لڑکیوں کا شوق ہے کہ دریا کے کنارے کنارے جائیں گے''۔ ایک نے جواب دیا… ''ہم اپنے کام سے فارغ ہوگئے ہیں، واپسی کی کوئی جلدی نہیں۔ دو تین راتیں یہیں قیام کریں گے… اگر آپ کو شک ہو تو چل کر ہمارا سامان دیکھ لیں۔ ہمارے پاس بہت ساری رقم ہے۔ وہ بھی دیکھ لیں، تاکہ آپ کو یقین ہوجائے کہ ہم واقعی مصر کے تاجر ہیں''۔
دونوں گھوڑ سوار ان کے ساتھ چل پڑے اور قیام کی جگہ پہنچے تو سب اٹھ کھڑے ہوئے۔ سب نے جھک کر سلام کیا پھر دونوں کے ساتھ مصافحہ کیا۔ ایک آدمی نے پوچھا کہ وہ ان کا سامان نہیں دیکھیں گے؟ گھوڑ سوار سنتری گھوڑوں سے اتر چکے تھے۔ انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا کہ وہ سامان نہیں دیکھیں گے۔ ایک آدمی نے سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج کی تعریفیں شروع کردیں۔ پھر انہوں نے ان دونوں کی جوانی، دلیری اور فرض کی تعریفیں کیں۔ا نہوں نے ایسی کوئی بات نہ کی جس سے ان دونوں کو کوئی شک ہوتا۔ اس دوران چاروں لڑکیاں کپڑے پہن کر اور بال جھاڑ کر آگئی تھیں لیکن وہ شرمائی شرمائی سی پرے ہٹ کر کھڑی رہیں۔ اس ویرانے میں ان سپاہیوں نے دو اڑھائی سال بعد باہر کے چند آدمیوں کی محفل دیکھی اور انہیں عورت ذات نظر آئی۔ ان لڑکیوں میں انہوں نے عورت کا ہر ایک روپ دیکھا… ماں، بہن، بیوی اور وہ عورت بھی جو ماں ہوتی ہے نہ بہن نہ بیوی… دونوں کی نظریں ان لڑکیوں نے گرفتار کرلیں۔ لڑکیاں انہیں دیکھ دیکھ کر شرماتی اور منہ چھپا کر مسکراتی تھیں۔ ان کے شرم وحجاب سے پتا چلتا تھا کہ یہ سب اچھے خاندان کے لوگ ہیں۔
یہ دونوں سرحدی سپاہی ان آدمیوں کی باتوں اور خصوصاً لڑکیوںمیں ایسے محو ہوئے کہ اپنی ڈیوٹی بھول گئے۔ سرحدی علاقے میں اتنی مدت سے پڑے رہنے اور فارغ ہونے کے جو برے اثرات تھے، وہ بڑی خطرناک نفسیاتی تشنگی بن کر ان پر غالب آگئے۔ ایک آدمی دریا کے کنارے برچھی لیے کھڑا مچھلیاں پکڑ رہا تھا۔ وہ پانی پر دانے سے پھینکتا تھا۔ مچھلیاں اوپر آجاتی تھیں، وہ اوپر سے برچھی مارتا تو ایک مچھی برچھی کی انی میں پروئی ہوئی باہر آجاتی۔ وہ بہت سی مچھلیاں پکڑ چکا تھا۔ کسی نے لڑکیوں سے کہا کہ وہ مچھلیاں بھونیں۔ چاروں 
لڑکیاں دوڑی گئیں۔ انہوں نے آگ جلائی اور مچھلیوں کو کاٹ کر آگ پر رکھ دیا۔


Thank You For Reading
For more updates Stay tuned with us : Visit http://www.amadahmad.blogspot.com

0 comments :