Young Generation

2:19:00 PM Amad Ahmad 0 Comments




"صاحب جی! جب درخت جوان ہو تو میں، بوڑھا آدمی اس کی کانٹ چھانٹ نہیں کرسکتا۔"
مالی بابا نے ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے کہا۔
"جب پودا نازک ہو، تب ہی اس کی شاخیں تراشنا آسان ہوتا ہے۔ پیچھے تنے پر کوئی نشان تک نظر نہیں آتا۔"
مالی بابا نے اپنا فلسفہ بیان کرتے ہوئے کہا۔
"ٹھیک ہے کرمو بابا! لیکن اس بات کا میرے مسئلے سے کیا تعلق؟"
میں نے کچھ اکتاہٹ سے سوال کیا۔
اچھا ٹھہریں! پہلے میں آپ کو اپنا تعارف کروادوں، میرا نام ارمغان عالم ہے، شہر میں اچھی نوکری ہے، مسئلہ یہ ہے کہ میرا بیٹا خالد ارمغان میری بات نہیں مانتا اور سنی ان سنی کردیتا ہے، عمر اس کی سولہ سال کے لگ بھگ ہے۔لان میں کھڑا تھا کہ وہ مالی بابا کے سامنے مجھ سے بدتمیزی کرتا ہوا باہر چلا گیا۔
"مالی بابا! خالد کو میں نے کیا نہیں دیا؟ اچھا کھانا پینا پہننا، اچھی تعلیم، ہر سہولت دی ہے اسے میں نے۔"
میں نے اپنی بات جاری رکھی۔
"صاحب! پودا جب چھوٹا ہوتا ہے تو اسے کھاد، پانی کے ساتھ ساتھ تراش خراش اور تیز ہوا، دھوپ سے بھی بچاؤ کی ضرورت ہوتی ہے۔"
"آپ نے خالد صاحب کو کھاد اور پانی تو خوب دیا لیکن ان کی تراش خراش سے بے پرواہ رہے۔"
"ادھر آئیں صاحب!"
مالی بابا مجھے ایک درخت کے پاس لے گیا جس کا تنا بالکل سیدھا اور خوبصورت تھا۔
"دیکھیں! اس تنے کی خوبصورتی کا تعلق اس کانٹ چھانٹ کے عمل سے ہے جو میں اس کے بچپن میں کرتا تھا۔ جو شاخ اس کے تنے پر اگتی، اسے پیار سے ہٹا دیتا۔ اور آج دیکھیں، اس کا تنا کتنا سیدھا اور خوبصورت ہے۔"
مالی بابا نے اپنا تجربہ پیش کرتے ہوئے کہا۔
"صاحب جی! آپ میری بات سمجھ رہے ہیں؟"
مالی بابا نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔
"جی جی! آپ بات کرتے رہیں۔"
میں نے فوراً کہا۔
"بچے بھی نازک پودے کی مانند ہوتے ہیں، دس، بارہ سال کا وقت محض کھاد پانی کا نہیں، بلکہ تراش خراش اور کانٹ چھانٹ کا بھی ہے، ساتھ ساتھ ماحول کی تیز دھوپ اور تیز ہوا سے بھی انھیں بچانا ہے۔"
"اور اور۔۔۔۔
اگر یہ کام ہم بارہ تیرہ سال کے بعد شروع کریں گے تو تنے پر اس کے نشان ثبت ہوں گے اور درخت اپنی خوبصورتی کھو بیٹھے گا۔"
مالی بابا نے اپنی بات مکمل کی۔
"جی مالی بابا! اب تو خالد سولہ سال کا ہوگیا ہے، اب کیا کروں؟"
میں اپنے موجودہ مسئلے کا حل چاہتا تھا۔
"اسے اپنے آپ سے مانوس کریں، جب وہ آپ کے سامنے آئے تو ہنس کر بات شروع کریں۔ وہ جب گھر آتا ہے، آپ سے ڈر کر فوراً اپنے کمرے میں چلا جاتا ہے۔ جو خرابی سولہ سال میں پیدا ہوئی ہے، اسے سولہ دن میں ختم کرنے کی کوشش نہ کریں ورنہ تنا چٹخ جائے گا۔"
مالی بابا کیسی تجربے کی بات کررہے تھے۔
"جب بھی بات کریں، پہلے اس کی خوبیوں کی بھی تعریف کریں، پھر ایک آدھ مختصر ہلکا پھلکا جملہ نصیحت کا بول کر اسے طول نہ دیں اور گفتگو کا خاتمہ بھی مسکراہٹ کے ساتھ کریں۔"
"صاحب جی! مٹی کی گوڈی آہستہ آہستہ لیکن مسلسل کی جاتی ہے، تب جاکر زرخیز مٹی باہر نکلتی ہے۔"
مالی بابا کی بات نے میرے سر کے اوپر سے بوجھ اتار پھینکا تھا۔
اتنے میں خالد گھر میں داخل ہوا، اور سلام کرکے تیزی سے کمرے میں جانے لگا۔
"خالد بیٹا! آپ کی طبیعت کل کچھ خراب تھی، اب کیسی ہے؟"
میں نے مسکراتے ہوئے سوال کیا۔
"جی ابو! اب بہتر ہے۔"
خالد نے حیرت سے مجھے دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
"بیٹا! اپنا خیال رکھا کرو۔"
میں نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
اور میں مالی بابا کا دیا ہوا سبق سیکھ چکا تھا 
کہ
سولہ سال کی خرابی، سولہ دن میں ٹھیک نہیں ہوسکتی
اور
آہستہ آہستہ لیکن مسلسل کی ہوئی گوڈی ہی زرخیز مٹی باہر نکالتی ہے۔
میں نے کہی پڑھا تھے !
'' یتیم وہ بچہ نہیں ہے جسے اسکے والدین دنیا میں‌تنہا چھوڑ گئے ہوں، 
اصل یتیم تو وہ ہیں جن کی ماؤں کو تربیت اولاد سے دلچسپی نہیں ہے اور باپ کے پاس انکو دینے کے لیے وقت نہیں۔“
بچوں کو برائیوں کے سیلاب سے بچانے کے لیے موجودہ دور کی عورت کو خصوصا“ 
اپنے اوقات کار،گھر کے نظام،بچوں کی دلچسپی اور اپنی لا پروائیوں پر توجہ دینی ہوگی اور اس ثقافتی یلغار کا مقابلہ اسلامی رنگ کو اپنا کر ہی کیا جا سکے گا۔ 
رنگ اسی کپڑے پر اچھا چڑھتا ہے جس کا اپنا کوئی رنگ نہ ہو،
اپنی اولاد اور گھر کے افراد کا اور رنگوں سے نکال کر صبغت اللہ میں ‌رنگنا ہی اس چیلنج کا مقابلہ کرنا کے لیے کافی ہو گا۔ انشاءاللہ

0 comments :