Showing posts with label Urdu Post. Show all posts

ہمیں اپنے گلے کے بچھو نظر نہیں آتے اور دوسروں کی مکھیاں اڑانے کی فکر لگی ہوئی ہے۔




تحریر اشفاق احمد
نیا نیا دین پڑھنا شروع کیا تھا۔ نمازیں وقت پر ادا ہونے لگیں، اذکار، نوافل، تلاوتِ قرآن۔ میوزک کی جگہ دینی لیکچرز، پردہ۔ ایک کے بعد ایک تبدیلی۔۔ زندگی میں سکون تو تھا ہی لیکن اب سکون کی انتہا ہونے لگی۔ تشکر سے دل بھر گیا۔ جہاں ایک طرف سب کچھ perfection کی طرف جا رہا تھا، وہاں ساتھ ہی ایک بہت بڑی خرابی نے ہلکے ہلکے دل میں سر اٹھانا شروع کیا۔ تکبر! جی۔ یہی شیطان کی چالیں ہیں۔ اول تو وہ دین کی طرف آنے نہیں دیتا۔ اگر اس مرحلے میں ناکام ہو جائیں تو ریا کاری کروا کے نیکی ضائع کرواتا ہے ، دل میں تکبر ڈال کر ضائع کرواتا ہے۔مجھے یہ تو نظر آتا تھا کہ فلاں نے تین ہفتے سے نمازِ جمعہ ادا نہیں کی تو اسکے دل پر مہر لگ گئی ہے، مجھے یہ بھول جاتا تھا کہ اللّٰہ تعالٰی نے ساری زندگی زنا کرنے والی اس عورت کو پیاسے کتے کو پانی پلانے پر بخش دیا۔ مجھے یہ تو دکھائی دیتا کہ فلاں لڑکی نے پردہ نہیں کیا، مجھے یہ بھول جاتا کہ رائی جتنا تکبر مجھے کہیں جہنم میں نہ گرا دے۔ مجھے یہ تذکرہ کرنا تو یاد رہتا کہ فلاں نے داڑھی رک لی اور نماز ادا نہیں کی، مجھے یہ بھول جاتا کہ کسی کی غیبت کر کے مردار بھائی کا گوشت کھانے کی مرتکب تو میں بھی ہو رہا ہوں۔
یہ سلسلہ کچھ عرصہ یونہی چلتا رہا۔ پھر ایک بار کسی نے بڑے پیارے انداز میں ایک قصہ سنایا۔ قصہ ایک فقیر کا تھا۔ وہ مسجد کے آگے مانگنے بیٹھا۔ نمازی باہر نکلے تو انہیں اپنی نمازوں پر بڑا زعم تھا۔ فقیر کو ڈانٹ کر بھگا دیا۔ وہاں سے اٹھ کر فقیر مندر گیا۔ پجاری باہر آئے تو اس کے ساتھ وہی سلوک یہاں بھی ہوا۔ تنگ آ کر وہ شراب خانے کے باہر بیٹھ گیا۔ جو شرابی باہر آتا اور اسے کچھ دے دیتا، ساتھ میں دعا کا کہتا کہ ہم تو بڑے گناہگار ہیں، کیا پتہ تجھے دیا ہوا ہی بخشش کا باعث بن جائے۔
مجھے سمجھ آ گئی تھی کہ گناہ کر کے شرمندہ ہونا نیکی کر کے تکبر کرنے سے بہتر ہے۔
یہ قصہ میرے لئے turning point ثابت ہوا۔ ہم سب کو اپنے آپ کا جائزہ لینے کی شدید ضرورت ہے۔ ضرور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں لیکن judgement کا کام رب کے لئے چھوڑ دیں۔ نیکی کا کام دل میں امت کا درد اور محبت لے کر کرنے سے ہو گا، اپنے آپکو باقیوں سے برتر سمجھ کر نہیں۔ کانٹے بچھا کر پھولوں کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟
نفرتیں پھیلا کر محبتیں کسیے سمیٹی جا سکتی ہیں؟
دوسروں کی اصلاح کریں لیکن اپنے رویئے پر کڑی نگاہ رکھنا نہ بھولیں۔
بابا جی اشفاق احمد صحیح کہتے ہیں، ہمیں اپنے گلے کے بچھو نظر نہیں آتے اور دوسروں کی مکھیاں اڑانے کی فکر لگی ہوئی ہے۔

پیسہ پھینک تماشہ دیکھ

پیسہ پھینک تماشہ دیکھ-(ایم طاہر)

ڈالر نے امریکہ کا اتنا خون نہیں چوسا ہوگا جتنا پاکستانیوں کا چوس چکا۔ اور یہ اج کی بات نہیں جب سے پاکستان بنا تب سے ہی چلا آ رہا ہے۔ پاکستان بنا تو غربت تھی مگر جن چند خاندانوں کا جہاں ہاتھ لگا وہاں سے پاکستان کو زخمی کرنا شروع کر دیا-غریب بچاری عوام بھوکی ننگی اپنا مال عزتیں اورجانیں قربان کر کے جہاں سے چلی تھیں اج بھی انہی حالات میں اپنے ننگے پاوں کھڑی کسی مسیحا کا انتظار کر رہی ہے۔ جو لوگ پاکستان بننے کےبعد عوام کو بیواقوف بناتے رہے اج بھی انہی کے خاندان والے ہاتھ میں ڈنڈا لیے اسی عوام کو ہانک رہی ہے۔ ویسے بھی اسلامی تاریخ کے ہر دور میں میر جعفر و صادق اتے رہے ہیں۔ صرف پیسہ پھنکنے کی دیر ہے۔ ایک بات تو مشترک ہے کہ مارتے بھی پاکستانی مرتے بھی پاکستانی اور تماشائی بھی پاکستانی ہی ہے۔ دوستوں پاکستان اسی لیے بنا تھا کہ مارے بھی ہم ، مرے بھی ہمارے اور دفنائے بھی ہم خود۔ 

دوستوں کیا پاکستان صرف اسی لیے بنا تھا کہ قائداعظم کو جب ہسپتال کے لیے لےجانے کی ضرورت ہو تو ان کی ایمبولیس کو کئی گھنٹوں تک رستے میں روکے رکھا ۔ان کا طیارہ پیٹرول کی کمی کے نام پر روک کر ان کی آخری سانسیں لینا بھی اتنا مشکل کر دیا کہ پاکستان جیسا ملک دنیا کےنقشے میں بنانے کا بھی کوئی نا سوچ سکے۔ دوستوں کیا پاکستان اس لیے بنا تھا ؟ جب لیاقت علی جیسے لیڈر کی پاکستان کو ضرورت تھی تو انھیں سرے عام گولی مارکر شہید کر دیا گیا صرف اس لیے کہ انھوں نے مکے کا نعرہ دیا تھا ان کا قصور صرف اتنا ہی تھا وہ کہتے تھے کہ جس طرح ایک ہاتھ کی چار انگلیاں اور انگوٹھا مل کر مُکہ بنتا ہے اسی طرح چاروں صوبے اور کشمیر کے لوگ ایک ہو جائیں تو پاکستان بننے کا مقصد پورا ہو جائے ۔ دوستو ! پاکستانی مارتے ہیں پاکستانی ہی مرتے ائے ہیں اور فاتحہ بھی ہم خود ہی پڑھتے ہیں۔ کیونکہ اس قوم کو ڈالر کی لت لگ گئی ہے۔ پیسہ پھینک تماشہ دیکھ۔ یہی ڈالر کبھی ملک میں پہلا مار شل لا لگواتا ہے تو کبھی قائد اعظم کی پیاری بہن فاطمہ کو سیاست میں رسواء کروایا جاتا ہے۔ کبھی دوسرا مارشل لا لگواتا ہے تو کبھی بھارت اور پاکستان کی پیسنٹھ اور اکہتر کی جنگیں کرواتا ہے۔ 

یہ ڈالر کبھی پاکستان کو دو ٹکروں میں تقسیم کر کے بنگلہ دیش بنوا دیتا ہے تو کبھی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکوا دیتا ہے۔ اسی ڈالر نے کبھی ضیاۓ ء الحق کو مارشل لا کے لیے مجبور کیا تو کبھی افغان جنگ میں روس کے خلاف استعمال کرنے کے لیے مجاہدین بنائے۔ اسی ڈالر نے ضیاء الحق سمیت پوری اعلیٰ قیادت کا طیارہ اڑا دیا تو اسی پیسے سے بینظر اقتدارمیں ائیں۔ کبھی اسی ڈالر نے نواز شریف کو تاج پہنایا تو کبھی واپس چھین کر بینظیر کو دے دیا۔ اسی ڈالر نے پھر نواز شریف کو کرسی پیش کی مگر پھر مشرف کو سامنے لا کھڑا کیا۔ اسی ڈالرنے کارگل کی جنگ کروائی توکبھی انھی مجاہدین کو دھشتگرد بنا کر افغان وار دوبارہ شروع کروا دی۔ اسی ڈالر نے بینظیر کو سر پر سرے عام گولی مروائی ۔ تو پھرمشرف کو کرسی سے اتارہ جسے وہ اپنی کھال کہتا تھا۔ تو کبھی آصف زردای جیل سے نکال کر بادشاہ بنا دیا۔ پھر اسی ڈالر نے نواز شریف کو تیسری بار پاکستان کے سیاہ سفید کا مالک بنا دیا۔ ہاں اس ڈالر کی پاکستانیوں کو لت لگ گئی ہے۔ ہاں اسی ڈالر نے پاکستانیوں کا خون اپنے پاکستانیوں سے چوسوایا ہے اور پھر اسی ڈالر نے اس مردہ عوام کو پاکستانیوں سے ہی دفنا کر ان کی میتوں پر فاتحہ خوانی کروائی ہے۔ 
اے عوام پاکستان۔ تمھارا ازلی دشمن یہ ڈالر ہی ہے۔ جب تک اس کے نشے میں دھت پاکستانی افراد کو چن چن کر ختم نہیں کرو گے یہ ڈالر تب تک تمھارا خون چوستا رہے گا۔ تمھیں اپنے پاکستانیوں کے ہاتھوں مرواتا رہے گا۔ اور تمھارے اپنے پاکستانی ہی تمھارا تماشہ دیکھتے رہیں گے۔۔ کیوں نہ دیکھیں گے۔ تمھارے پاکستانی خون میں ڈالر جو دوڑتا ہے۔ پیسہ پھینک تماشہ دیکھ۔



داستان مجاہد ----- نسیم حجازی کا اسلامی تاریخی ناول قسط نمبر22


داستان مجاہد۔۔۔۔۔۔ 
نسیم حجازی کا اسلامی تاریخی ناول
قسط نمبر22
نعیم کو اب ہر لحاظ سے اس گاؤں کے لوگ انسانیت کا بلند ترین معیار تصور کرنے لگے اور اس کی ہر بات اور ہر حرکت قابل تقلید خیال کی جانے لگی۔ اس بستی میں اسے ڈیڑھ مہینہ گزر گیا۔ اسے اس بات کا یقین تھا کہ قتیبہ موسم بہار سے پہلے نقل و حرکت نہیں کرے گا اس لیے بظاہر اس کے وہاں ٹھہرنے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی لیکن ایک نیا احساس نعیم کو اب کسی حد تک بے چین کر رہا تھا۔
نرگس کا طرز عمل اس کے پرسکون دل میں پھر ایک بار ہیجان پیدا کر رہا تھا۔ وہ اپنے خیال میں ابتدائے شباب کے رنگین سپنوں سے بے نیاز ہو چکا تھا لیکن فطرت کی رنگینیاں ایک بار پھر اس کے دل کے سوئے ہوئے فتنوں کو بیدار کرنے کے لیے کوشاں تھیں۔
نرگس اپنی شکل و شباہت اور اخلا ق و عادات کے لحاظ سے اسے اس بستی کے لوگوں سے بہت مختلف نظر آتی تھی۔ ابتدا میں جب بستی کے لوگ نعیم سے اچھی طرح واقف نہ تھے نرگس اس کے ساتھ بے تکلفی سے پیش آتی رہی لیکن جب بستی کے لوگ اس سے بے تکلف ہونے لگے تو اس کی بے تکلفی تکلف میں تبدیل ہو گئی۔ شوق کی انتہا اسے نعیم کے کمرے تک لے جاتی اور گھبراہٹ کی انتہا اسے چند لمحات سے زیادہ وہاں ٹھہرنے کی اجازت نہ دیتی۔ وہ اس کے کمرے میں اس خیال سے داخل ہوتی کہ وہاں سارا دن بیٹھ کر اسے بیتاب نگاہوں سے دیکھتی رہے گی لیکن نعیم کے سامنے پہنچ کر یہ خیال غلط ثابت ہوتا۔ اپنی امیدوں اور آرزوؤں کے مرکز کی طرف دیکھتے ہی وہ آنکھیں جھکا لیتی اور دھڑکتے ہوئے دل کی پر زور درخواستوں منتوں اور سماجتوں کے باوجود اسے دوبارہ نظر اٹھانے کی جرات نہ ہوتی اور اگر کبھی وہ یہ جرات کر بھی لیتی تو حیا نعیم اور اس کے درمیان ایک نقاب بن کر حائل ہو جاتی۔ ایسی حالت میں فقط یہ خیال اس کے دل کی تسکین کا باعث ہوتا کہ نعیم اس کی طرف دیکھ رہا ہے لیکن جب کبھی وہ ایک آدھ نگاہ غلط انداز سے اس کی طرف دیکھ لیتی اور اسے گہرے خیال میں گردن نیچی کیے پوستین کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے یا گھاس کے تنکوں کو کھینچ کھینچ کر توڑتے ہوئے پاتی تو اس کے دل کے اندر سلگنے والی چنگاریاں بجھ جاتیں اور جسم کے ہر رگ و ریشے میں سردی کی لہر دوڑ جاتی۔ اس کے کانوں میں گونجنے والے شباب کی دلکش راگ کی تانیں خاموش ہو جاتیں اور اس کے خیالات منتشر ہو جاتے۔ وہ اپنے دل پر ایک ناقابل برداشت بوجھ لیے اٹھتی اور نعیم کو حسرت بھرتی نگاہوں سے دیکھتی ہوئی کمرے سے باہر چلی جاتی۔
ابتدا میں ایک معصوم لڑکی کی محبت جہاں انسان کے دل میں ارادوں کا طوفان اور تصورات و خیالات کا ہیجان پیدا کر دیتی ہے وہاں غیر معمولی توہمات اسے عمل اور حرکت کی جرات سے بھی نا کار کر دیتے ہیں۔
نعیم اس کے خیالوں، آرزوؤں اور سپنوں کی چھوٹی سی دنیا کا مرکزی نقطہ بن چکا تھا۔ اس کا حال مسرتوں سے لبریز تھا لیکن جب وہ مستقبل کے متعلق سوچتی تو ان گنت توہمات اسے پریشان کرنے لگتے۔ وہ اس سامنے جانے کی بجائے اسے چھپ چھپ کر دیکھتی۔ کبھی ایک خیال انبساط کی کیفیت اسکے دل کو مسرور بنائے رکھتی اور کبھی ایک خیالی خوف کا تصور اسے پہروں بے چین رکھتا۔
نعیم ایسے ذکی الحس انسان کے لیے نرگس کے دل کی کیفیت کا اندازہ کرنا مشکل نہ تھا۔ وہ اپنی قوت تسخیر سے نا آشنا نہ تھا لیکن اس اپنے دل میں اس بات کا فیصلہ نہیں کیا تھا کہ اسے اس فتح پر خوش ہونا چاہیے یا نہیں۔
ایک دن عشا کی نماز کے بعد نعیم نے ہومان کو اپنے پاس بلایا اور اس پر واپس جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ ہومان نے جواب دیا ’’میں آپ کی مرضی کے خلاف آپ کو روکنے کی جرات تو نہیں کر سکتا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ برفانی پہاڑوں کے راستے ابھی صاف نہیں ہوئے۔ آپ کم از کم ایک مہینہ اور ٹھہر جائیں۔ موسم بدل جانے پر آپ کے لیے سفر کرنا آسان ہو گا۔‘‘
نعیم نے جواب دیا ’’برفباری کا موسم تو اب گزر چکا ہے اور ویسے بھی سفر کا ارادہ میرے لیے ہموار یا دشوار گزار راستے ایک ہی جیسے بنا دیا کرتا ہے۔ میں کل صبح جانے کا ارادہ کر چکا ہوں۔‘‘
’’اتنی جلدی! کل تو ہم نہیں جانے دیں گے!‘‘
’’اچھا۔ صبح کے وقت دیکھا جائے گا۔‘‘ یہ کہہ کر نعیم بستر پر دراز ہو گیا۔ ہومان اپنے کمرے میں جانے کے لیے اٹھا۔ راستے میں نرگس کھڑی تھی۔ ہومان کو آتا دیکھ کر وہ درخت کی آڑ میں کھڑی ہو گئی۔ ہومان جب دوسرے کمرے میں چلا گیا تو نرگس بھی اس کے پیچھے پیچھے داخل ہوئی۔
’’نرگس باہر سردی ہے۔ تم کہاں پھر رہ ہی ہو؟‘‘ ہومان نے کہا۔
نرگس نے جواب دیا۔ ’’کہیں نہیں۔یونہی باہر گھوم رہی تھی۔‘‘
یہ کمرہ نعیم کی آرام گاہ سے ذرا کھلا تھا۔ فرش پر سوکھی گھاس بچھی تھی۔ کمرے کے ایک کونے میں ہومان اور دوسرے میں نرگس لیٹ گئے۔ہومان نے کہا۔’’نرگس! وہ کل جانے کا ارادہ کر رہے ہیں۔‘‘
نرگس اپنے کانوں سے نعیم اور ہومان کی باتیں سن چکی تھی لیکن ایسے موضوع پر اس کی دلچسپی ایسی نہ تھی کہ وہ خاموش رہتی۔
وہ بولی۔’’تو آپ نے ان سے کیا کہا؟‘‘
’’میں نے تو انہیں ٹھہرنے کے لیے کہا ہے لیکن اصرار کرتے ہوئے بہت ڈر لگتا ہے۔ گاؤں والوں کو ان کے جانے کا بہت افسوس ہو گا۔ میں ان سے کہوں گا کہ وہ تمام مل کر انہیں ٹھہرنے پر مجبور کریں۔‘‘
ہومان نرگس سے چند اور باتیں کرنے کے بعد سو گیا۔ چند بار کروٹیں بدلنے اور سونے کی ناکام کوشش کے بعد اٹھ کر بیٹھ گئی۔ ’’اگر انہیں اس طرح چلے جانا تھا تو آئے ہی کیوں تھے؟‘‘ یہ خیال آتے ہی وہ اپنی جگہ سے اٹھی۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہوئی کمرے سے باہر نکلی۔ نعیم کے کمرے کا طواف کیا۔ ڈرتے ڈرتے دروازہ کھولا لیکن آگے قدم اٹھانے کی جرات نہ ہوئی۔ اندر شمع جل رہی تھی اور نعیم پوستین اوڑھے سو رہا تھا۔ اس کا چہرہ ٹھوڑی تک عریاں تھا۔ نرگس نے اپنے دل میں کہا۔ ’’میرے شہزادے! تم جا رہے ہو۔ نہ معلوم کہاں ! تم کیا جانو کہ تم یہاں کیا چھوڑ کر جا رہے ہو اور کیا کچھ اپنے ساتھ لے جاؤ گے۔ ان پہاڑوں، چراگاہوں، باغوں اور چشموں کی تمام دلچسپیاں اپنے ساتھ لے جاؤ گے اور اس ویرانے میں اپنی یاد چھوڑ جاؤ گے....شہزادے....میرے شہزادے.... نہیں نہیں۔ تم میرے نہیں۔ میں اس قابل نہیں۔‘‘یہ سوچ کر نرگس سسکیاں لینے لگی۔ پھر وہ کمرے کے اندر داخل ہوئی اور تھوڑی دیر بے حس و حرکت کھڑی نعیم کی طرف دیکھتی رہی۔
اچانک نعیم نے کروٹ بدلی۔ نرگس خوفزدہ ہو کر باہر نکلی اور دبے پاؤں اپنے کمرے میں جا کر بستر پر لیٹ گئی۔ ’’اف کتنی رات طویل ہے!‘‘ اس نے چند بار اٹھ اٹھ کر لیٹتے ہوئے کہا۔
علی الصباح ایک گڈریے نے اذان دی۔ نعیم بستر سے اٹھا اور وضو کے لیے چشمے پر پہنچا۔ نرگس پہلے سے وہاں موجود تھی۔ نرگس کی توقع کے خلاف نعیم اسے وہاں دیکھ کر زیادہ حیران نہ ہوا۔ اس نے کہا: ’’نرگس! تم آج بہت سویرے یہاں آ گئیں ؟‘‘
نرگس ہر روز نعیم کو ان درختوں کے پیچھے چھپ چھپ کر دیکھا کرتی تھی۔ آج وہ نعیم سے اس کی بے نیازی کا شکوہ کرنے کے لیے تیار ہو کر آئی تھی لیکن نعیم کے اس درجہ بے پروائی سے ہمکلام ہونے پر اس کے دل میں ولولوں کی آگ ٹھنڈی پڑ گئی۔ تاہم وہ ضبط نہ کر سکی۔ اس نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے کہا: ’’آج آپ چلے جائیں گے؟‘‘
’’ہاں ! نرگس مجھے یہاں آہوئے بہت دیر ہو گئی ہے۔ آپ نے میرے لیے بہت تکلیف اٹھائی ہے شاید میں شکریہ ادا نہ کر سکوں۔ خدا آپ لوگوں کو جزائے خیر دے !‘‘
نعیم یہ کہہ کر ایک پتھر پر بیٹھ گیا اور چشمے کے پانی سے وضو کرنے لگا۔ نرگس کچھ اور بھی کہنا چاہتی تھی لیکن نعیم کا طرز عمل حوصلہ افزا نہ تھا۔ دل کا طوفان یکسر ٹھنڈا ہو گیا۔ جب گاؤں کے باقی لوگ وضو کے لیے اس چشمے پر جمع ہونے لگے تو نرگس وہاں سے کھسک آئی۔
گاؤں کا بڑا خیمہ جس میں یہ لوگ اسلام لانے سے پہلے فرصت کے لمحات میں رقص و سرود میں گزارا کرتے تھے اب نماز کے لیے وقف تھا۔ نعیم وضو کرنے کے بعد اس خیمے میں داخل ہوا۔ گاؤں کے لوگوں کو نماز پڑھائی اور دعا کے بعد انہیں بتایا کہ میں جا رہا ہوں۔
نعیم اور ہومان ایک ساتھ خیمے سے باہر نکلے۔ مکان پر پہنچ کر نعیم اپنے کمرے میں داخل ہوا۔ ہومان نے نعیم کے ساتھ داخل ہوتے وقت اپنے پیچھے گاؤں کے لوگوں کو آتے دیکھا تو اندر جانے کی بجائے چند قدم واپس ہو کر ان کی طرف متوجہ ہو ا۔ ’’کیا وہ سچ مچ چلے جائیں گے؟‘‘ ایک بوڑھے نے سوال کیا۔
’’ہاں۔ مجھے افسوس ہے کہ وہ نہیں ٹھہریں گے۔ہومان نے جواب دیا۔
’’اگر ہم اصرار کریں تو بھی؟‘‘
’’تو شاید ٹھہر جائیں لیکن مجھے یقین نہیں۔ تاہم آپ انہیں ضرور مجبور کریں۔ وہ جس دن سے آئے ہیں، میں محسوس کر رہا ہوں کہ مجھے دنیا کی بادشاہت مل گئی ہے۔ آپ عمر میں مجھ سے بڑے ہیں۔ آپ ضرور کوشش کریں۔ شاید وہ آپ کا کہا مان لیں۔‘‘
نعیم زرہ بکتر اور اسلحہ سے آراستہ ہو کر باہر نکلا۔ گاؤں کے لوگوں نے اسے دیکھ کر ایک ساتھ شور مچانا شروع کیا۔’’ہم نہیں جانے دیں گے۔ ہم نہیں جانے دیں گے!‘‘
نعیم اپنے مخلص میزبانوں کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد ہاتھ بلند کیا۔ وہ تمام یکے بعد دیگرے خاموش ہو گئے۔
نعیم نے ایک مختصر سی تقریر کی:
’’برادران! اگر میں اپنے فرائض کی وجہ سے مجبور نہ ہوتا تو مجھے اس جگہ چند دن اور ٹھہر جانے پر اعتراض نہ ہوتا لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ جہاد ایک ایسا فرض ہے جسے کسی بھی حالت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ میں آپ کی محبت کا تہہ دل سے ممنون ہوں۔ امید ہے کہ آپ مجھے خوشی سے اجازت دے دیں گے۔‘‘
نعیم نے اپنی تقریر ابھی ختم نہ کی تھی کہ ایک چھوٹا سا لڑکا چلا اٹھا۔ ’’ہم نہیں جانے دیں گے!‘‘ نعیم نے آگے بڑھ کر کمسن بچے کو اٹھا لیا اور اسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔’’مجھے آپ لوگوں کے احسانات ہمیشہ یاد رہیں گے۔ اس بستی کا تصور مجھے ہمیشہ مسرور کرتا رہے گا۔ جب میں اس بستی میں آیا تھا تو ایک اجنبی تھا۔اب جبکہ چند ہفتوں کے بعد میں رخصت ہو رہا ہوں تو یہ محسوس کرتا ہوں کہ اپنے عزیز ترین بھائیوں سے جدا ہو رہا ہوں۔ اگر خدا نے چاہا تو ایک بار پھر میں یہاں آنے کی کوشش کروں گا۔‘‘
اس کے بعد نعیم نے ان لوگوں کو چند نصیحتیں کیں اور دعا کے بعد لوگوں سے مصافحہ کرنا شروع کیا۔
ہومان بھی دوسرے لوگوں کی طرح اپنی مرضی کے خلاف راضی ہو چکا تھا۔ وہ نعیم کے لیے اپنا خوبصورت سفید گھوڑا لے آیا اور نہایت خلوص کے ساتھ یہ تحفہ قبول کرنے کی درخواست کی۔
نعیم نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ ہومان اور گاؤں کے پندرہ نوجوانوں نے نعیم کے ساتھ جہاد پر جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ نعیم کے اس وعدے پر کہ وہ اپنے لشکر میں پہنچ کر ضرورت کے وقت انہیں بلا بھیجے گا۔ وہ مطمئن ہو کر ٹھہر گئے۔ نعیم نے رخصت ہونے سے پہلے ادھر ادھر دیکھا لیکن نرگس نظر نہ آئی۔ وہ اسے الوداع کہے بغیر رخصت نہیں ہونا چاہتا تھا لیکن اس وقت اس کے متعلق کسی سے سوال کرنا بھی مناسب نہ تھا۔
ہومان سے مصافحہ کرتے ہوئے نعیم نے عورتوں کے ہجوم پر سرسری نظر ڈالی۔ نرگس شاید اس کا مطلب سمجھ گئی اور ہجوم سے علیحدہ ہو کر نعیم سے کچھ دور کھڑی ہو گئی۔ نعیم گھوڑے پر سوار ہوا۔ اس نے نرگس کے چہرے پر الوداعی نگاہ ڈالی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ نرگس کی آنکھیں نعیم کی آنکھوں کے مقابلے میں نہ جھپکیں۔ وہ پتھر کی ایک مورتی کی طرح بے حس و حرکت کھڑی آنکھیں پھاڑ کر نعیم کی طرف دیکھ رہی تھی۔ نعیم درد کی اس شدت سے واقف نہ تھا جس سے آنکھوں کے آنسو بھی خشک ہو جاتے ہیں۔ وہ اس دلگداز منظر کی تاب نہ لا سکا۔ اس کا دل بھر آیا لیکن جانے سے ٹھہر جانا مشکل نظر آتا تھا۔ نعیم نے دوسری طرف منہ پھیر لیا۔ ہومان اور گاؤں کے چند آدمی کچھ دور اس کے ساتھ جانا چاہتے تھے۔ لیکن اس نے انہیں منع کیا اور گھوڑے کو ایڑ لگا دی۔
لوگ اونچے اونچے ٹیلوں پر چڑھ کر نعیم کی آخری جھلک دیکھ رہے تھے لیکن نرگس وہیں کھڑی رہی۔ اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کے پاؤں زمین کے ساتھ پیوست ہو چکے ہیں اور اس میں ہلنے کی طاقت نہیں رہی۔ اس کی چند سہیلیاں اس کے گرد جمع ہو گئیں۔ زمرد جو سب سے زیادہ بے تکلف اور ہم راز تھی، مغموم صورت بنائے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس نے گاؤں کی عورتوں کو جمع ہوتے دیکھ کر کہا:
’’تم یہاں کیا دیکھ رہی ہو؟ جاؤ اپنے اپنے گھر!‘‘
چند عورتیں وہاں سے کھسک گئیں مگر بعض وہیں کھڑی رہیں۔ زمرد نے نرگس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا: چلو نرگس!‘‘
نرگس نے چونک کر زمرد کی طرف دیکھا اور بغیر کچھ کہے زمرد کے ساتھ خیمے کے اندر داخل ہو گئی۔ وہ پوستین جسے نعیم اوڑھا کر تا تھا، وہیں پڑی ہوئی تھی۔ نرگس نے بیٹھتے ہوئے پوستین اٹھائی۔ اپنا چہرہ اس میں چھپا لیا۔ آنکھوں میں رکے ہوئے آنسو بہہ نکلے۔زمرد دیر تک اس کے پاس کھڑی رہی۔ بالآخر اس نے نرگس کا بازو پکڑ کر اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا۔’’نرگس! تم مایوس ہو گئیں۔ میں نے انہیں کئی دفعہ وعظ میں یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ ہمیں خدا کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ وہ مانگنے والوں کو ہر شے بخش سکتا ہے۔ اٹھو نرگس باہر چلیں ! وہ ضرور آئیں گے۔‘‘
نرگس آنسو پونچھتے ہوئے زمرد کے ساتھ باہر نکلی۔ بستی کی ہر چیز پر اداسی چھا رہی تھی۔
(جاری ہے)

کیا محض علم آ جانے سے ایمان کی کیفیت نصیب ہوتی ہے؟



کیا محض علم آ جانے سے ایمان کی کیفیت نصیب ہوتی ہے؟
جواب:
نہیں، کسی چیز کا محض علم آ جانے سے ایمان حاصل نہیں ہوتا، اگر ایمان علم ہی سے حاصل ہوتا تو کوئی ان پڑھ مومن نہ ہوتا اور نہ کوئی علم والا کافر ہوتا جیسا کہ ابو جہل اور اس کے ساتھی کہا کرتے تھے :
مِنَّا نَبِيٌّ يَأتِيْهِ الْوَحْيُ مِنَ السَّمَاءِ فَمَتَی نَدْرُکُ هَذِهِ؟ وَاﷲ لَا نُوْمِنْ بِه اَبَداً وَلَا نُصَدِّقُهُ.
ابن کثير، تفسير ابن کثير، 2 : 131
’’(ہم مانتے ہیں کہ محمد) ہم میں سے ہی نبی ہیں اور اس کی طرف آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے، پس ہم اس چیز کا انکار نہیں کرتے (مگر) اللہ کی قسم ہم اس پر کبھی بھی ایمان نہیں لائیں گے اور نہ ہی اس کی تصدیق کریں گے۔‘‘
پس واضح ہوا کہ علم اور ایمان دو الگ حقیقتیں ہیں، کبھی علم کے باوجود ایمان نہیں ہوتا اور کبھی علم کے بغیر بھی ایمان ہوتا ہے۔ ایمان کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ.
البقره، 2 : 3
’’جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔‘‘
اس سے ثابت ہوا کہ ایمان بن دیکھے ماننے کا نام ہے جبکہ علم دیکھ کر ماننے کا نام ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔