Showing posts with label Islamic. Show all posts

ہمیں اپنے گلے کے بچھو نظر نہیں آتے اور دوسروں کی مکھیاں اڑانے کی فکر لگی ہوئی ہے۔




تحریر اشفاق احمد
نیا نیا دین پڑھنا شروع کیا تھا۔ نمازیں وقت پر ادا ہونے لگیں، اذکار، نوافل، تلاوتِ قرآن۔ میوزک کی جگہ دینی لیکچرز، پردہ۔ ایک کے بعد ایک تبدیلی۔۔ زندگی میں سکون تو تھا ہی لیکن اب سکون کی انتہا ہونے لگی۔ تشکر سے دل بھر گیا۔ جہاں ایک طرف سب کچھ perfection کی طرف جا رہا تھا، وہاں ساتھ ہی ایک بہت بڑی خرابی نے ہلکے ہلکے دل میں سر اٹھانا شروع کیا۔ تکبر! جی۔ یہی شیطان کی چالیں ہیں۔ اول تو وہ دین کی طرف آنے نہیں دیتا۔ اگر اس مرحلے میں ناکام ہو جائیں تو ریا کاری کروا کے نیکی ضائع کرواتا ہے ، دل میں تکبر ڈال کر ضائع کرواتا ہے۔مجھے یہ تو نظر آتا تھا کہ فلاں نے تین ہفتے سے نمازِ جمعہ ادا نہیں کی تو اسکے دل پر مہر لگ گئی ہے، مجھے یہ بھول جاتا تھا کہ اللّٰہ تعالٰی نے ساری زندگی زنا کرنے والی اس عورت کو پیاسے کتے کو پانی پلانے پر بخش دیا۔ مجھے یہ تو دکھائی دیتا کہ فلاں لڑکی نے پردہ نہیں کیا، مجھے یہ بھول جاتا کہ رائی جتنا تکبر مجھے کہیں جہنم میں نہ گرا دے۔ مجھے یہ تذکرہ کرنا تو یاد رہتا کہ فلاں نے داڑھی رک لی اور نماز ادا نہیں کی، مجھے یہ بھول جاتا کہ کسی کی غیبت کر کے مردار بھائی کا گوشت کھانے کی مرتکب تو میں بھی ہو رہا ہوں۔
یہ سلسلہ کچھ عرصہ یونہی چلتا رہا۔ پھر ایک بار کسی نے بڑے پیارے انداز میں ایک قصہ سنایا۔ قصہ ایک فقیر کا تھا۔ وہ مسجد کے آگے مانگنے بیٹھا۔ نمازی باہر نکلے تو انہیں اپنی نمازوں پر بڑا زعم تھا۔ فقیر کو ڈانٹ کر بھگا دیا۔ وہاں سے اٹھ کر فقیر مندر گیا۔ پجاری باہر آئے تو اس کے ساتھ وہی سلوک یہاں بھی ہوا۔ تنگ آ کر وہ شراب خانے کے باہر بیٹھ گیا۔ جو شرابی باہر آتا اور اسے کچھ دے دیتا، ساتھ میں دعا کا کہتا کہ ہم تو بڑے گناہگار ہیں، کیا پتہ تجھے دیا ہوا ہی بخشش کا باعث بن جائے۔
مجھے سمجھ آ گئی تھی کہ گناہ کر کے شرمندہ ہونا نیکی کر کے تکبر کرنے سے بہتر ہے۔
یہ قصہ میرے لئے turning point ثابت ہوا۔ ہم سب کو اپنے آپ کا جائزہ لینے کی شدید ضرورت ہے۔ ضرور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں لیکن judgement کا کام رب کے لئے چھوڑ دیں۔ نیکی کا کام دل میں امت کا درد اور محبت لے کر کرنے سے ہو گا، اپنے آپکو باقیوں سے برتر سمجھ کر نہیں۔ کانٹے بچھا کر پھولوں کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟
نفرتیں پھیلا کر محبتیں کسیے سمیٹی جا سکتی ہیں؟
دوسروں کی اصلاح کریں لیکن اپنے رویئے پر کڑی نگاہ رکھنا نہ بھولیں۔
بابا جی اشفاق احمد صحیح کہتے ہیں، ہمیں اپنے گلے کے بچھو نظر نہیں آتے اور دوسروں کی مکھیاں اڑانے کی فکر لگی ہوئی ہے۔

داستان مجاہد ----- نسیم حجازی کا اسلامی تاریخی ناول قسط نمبر22


داستان مجاہد۔۔۔۔۔۔ 
نسیم حجازی کا اسلامی تاریخی ناول
قسط نمبر22
نعیم کو اب ہر لحاظ سے اس گاؤں کے لوگ انسانیت کا بلند ترین معیار تصور کرنے لگے اور اس کی ہر بات اور ہر حرکت قابل تقلید خیال کی جانے لگی۔ اس بستی میں اسے ڈیڑھ مہینہ گزر گیا۔ اسے اس بات کا یقین تھا کہ قتیبہ موسم بہار سے پہلے نقل و حرکت نہیں کرے گا اس لیے بظاہر اس کے وہاں ٹھہرنے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی لیکن ایک نیا احساس نعیم کو اب کسی حد تک بے چین کر رہا تھا۔
نرگس کا طرز عمل اس کے پرسکون دل میں پھر ایک بار ہیجان پیدا کر رہا تھا۔ وہ اپنے خیال میں ابتدائے شباب کے رنگین سپنوں سے بے نیاز ہو چکا تھا لیکن فطرت کی رنگینیاں ایک بار پھر اس کے دل کے سوئے ہوئے فتنوں کو بیدار کرنے کے لیے کوشاں تھیں۔
نرگس اپنی شکل و شباہت اور اخلا ق و عادات کے لحاظ سے اسے اس بستی کے لوگوں سے بہت مختلف نظر آتی تھی۔ ابتدا میں جب بستی کے لوگ نعیم سے اچھی طرح واقف نہ تھے نرگس اس کے ساتھ بے تکلفی سے پیش آتی رہی لیکن جب بستی کے لوگ اس سے بے تکلف ہونے لگے تو اس کی بے تکلفی تکلف میں تبدیل ہو گئی۔ شوق کی انتہا اسے نعیم کے کمرے تک لے جاتی اور گھبراہٹ کی انتہا اسے چند لمحات سے زیادہ وہاں ٹھہرنے کی اجازت نہ دیتی۔ وہ اس کے کمرے میں اس خیال سے داخل ہوتی کہ وہاں سارا دن بیٹھ کر اسے بیتاب نگاہوں سے دیکھتی رہے گی لیکن نعیم کے سامنے پہنچ کر یہ خیال غلط ثابت ہوتا۔ اپنی امیدوں اور آرزوؤں کے مرکز کی طرف دیکھتے ہی وہ آنکھیں جھکا لیتی اور دھڑکتے ہوئے دل کی پر زور درخواستوں منتوں اور سماجتوں کے باوجود اسے دوبارہ نظر اٹھانے کی جرات نہ ہوتی اور اگر کبھی وہ یہ جرات کر بھی لیتی تو حیا نعیم اور اس کے درمیان ایک نقاب بن کر حائل ہو جاتی۔ ایسی حالت میں فقط یہ خیال اس کے دل کی تسکین کا باعث ہوتا کہ نعیم اس کی طرف دیکھ رہا ہے لیکن جب کبھی وہ ایک آدھ نگاہ غلط انداز سے اس کی طرف دیکھ لیتی اور اسے گہرے خیال میں گردن نیچی کیے پوستین کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے یا گھاس کے تنکوں کو کھینچ کھینچ کر توڑتے ہوئے پاتی تو اس کے دل کے اندر سلگنے والی چنگاریاں بجھ جاتیں اور جسم کے ہر رگ و ریشے میں سردی کی لہر دوڑ جاتی۔ اس کے کانوں میں گونجنے والے شباب کی دلکش راگ کی تانیں خاموش ہو جاتیں اور اس کے خیالات منتشر ہو جاتے۔ وہ اپنے دل پر ایک ناقابل برداشت بوجھ لیے اٹھتی اور نعیم کو حسرت بھرتی نگاہوں سے دیکھتی ہوئی کمرے سے باہر چلی جاتی۔
ابتدا میں ایک معصوم لڑکی کی محبت جہاں انسان کے دل میں ارادوں کا طوفان اور تصورات و خیالات کا ہیجان پیدا کر دیتی ہے وہاں غیر معمولی توہمات اسے عمل اور حرکت کی جرات سے بھی نا کار کر دیتے ہیں۔
نعیم اس کے خیالوں، آرزوؤں اور سپنوں کی چھوٹی سی دنیا کا مرکزی نقطہ بن چکا تھا۔ اس کا حال مسرتوں سے لبریز تھا لیکن جب وہ مستقبل کے متعلق سوچتی تو ان گنت توہمات اسے پریشان کرنے لگتے۔ وہ اس سامنے جانے کی بجائے اسے چھپ چھپ کر دیکھتی۔ کبھی ایک خیال انبساط کی کیفیت اسکے دل کو مسرور بنائے رکھتی اور کبھی ایک خیالی خوف کا تصور اسے پہروں بے چین رکھتا۔
نعیم ایسے ذکی الحس انسان کے لیے نرگس کے دل کی کیفیت کا اندازہ کرنا مشکل نہ تھا۔ وہ اپنی قوت تسخیر سے نا آشنا نہ تھا لیکن اس اپنے دل میں اس بات کا فیصلہ نہیں کیا تھا کہ اسے اس فتح پر خوش ہونا چاہیے یا نہیں۔
ایک دن عشا کی نماز کے بعد نعیم نے ہومان کو اپنے پاس بلایا اور اس پر واپس جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ ہومان نے جواب دیا ’’میں آپ کی مرضی کے خلاف آپ کو روکنے کی جرات تو نہیں کر سکتا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ برفانی پہاڑوں کے راستے ابھی صاف نہیں ہوئے۔ آپ کم از کم ایک مہینہ اور ٹھہر جائیں۔ موسم بدل جانے پر آپ کے لیے سفر کرنا آسان ہو گا۔‘‘
نعیم نے جواب دیا ’’برفباری کا موسم تو اب گزر چکا ہے اور ویسے بھی سفر کا ارادہ میرے لیے ہموار یا دشوار گزار راستے ایک ہی جیسے بنا دیا کرتا ہے۔ میں کل صبح جانے کا ارادہ کر چکا ہوں۔‘‘
’’اتنی جلدی! کل تو ہم نہیں جانے دیں گے!‘‘
’’اچھا۔ صبح کے وقت دیکھا جائے گا۔‘‘ یہ کہہ کر نعیم بستر پر دراز ہو گیا۔ ہومان اپنے کمرے میں جانے کے لیے اٹھا۔ راستے میں نرگس کھڑی تھی۔ ہومان کو آتا دیکھ کر وہ درخت کی آڑ میں کھڑی ہو گئی۔ ہومان جب دوسرے کمرے میں چلا گیا تو نرگس بھی اس کے پیچھے پیچھے داخل ہوئی۔
’’نرگس باہر سردی ہے۔ تم کہاں پھر رہ ہی ہو؟‘‘ ہومان نے کہا۔
نرگس نے جواب دیا۔ ’’کہیں نہیں۔یونہی باہر گھوم رہی تھی۔‘‘
یہ کمرہ نعیم کی آرام گاہ سے ذرا کھلا تھا۔ فرش پر سوکھی گھاس بچھی تھی۔ کمرے کے ایک کونے میں ہومان اور دوسرے میں نرگس لیٹ گئے۔ہومان نے کہا۔’’نرگس! وہ کل جانے کا ارادہ کر رہے ہیں۔‘‘
نرگس اپنے کانوں سے نعیم اور ہومان کی باتیں سن چکی تھی لیکن ایسے موضوع پر اس کی دلچسپی ایسی نہ تھی کہ وہ خاموش رہتی۔
وہ بولی۔’’تو آپ نے ان سے کیا کہا؟‘‘
’’میں نے تو انہیں ٹھہرنے کے لیے کہا ہے لیکن اصرار کرتے ہوئے بہت ڈر لگتا ہے۔ گاؤں والوں کو ان کے جانے کا بہت افسوس ہو گا۔ میں ان سے کہوں گا کہ وہ تمام مل کر انہیں ٹھہرنے پر مجبور کریں۔‘‘
ہومان نرگس سے چند اور باتیں کرنے کے بعد سو گیا۔ چند بار کروٹیں بدلنے اور سونے کی ناکام کوشش کے بعد اٹھ کر بیٹھ گئی۔ ’’اگر انہیں اس طرح چلے جانا تھا تو آئے ہی کیوں تھے؟‘‘ یہ خیال آتے ہی وہ اپنی جگہ سے اٹھی۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہوئی کمرے سے باہر نکلی۔ نعیم کے کمرے کا طواف کیا۔ ڈرتے ڈرتے دروازہ کھولا لیکن آگے قدم اٹھانے کی جرات نہ ہوئی۔ اندر شمع جل رہی تھی اور نعیم پوستین اوڑھے سو رہا تھا۔ اس کا چہرہ ٹھوڑی تک عریاں تھا۔ نرگس نے اپنے دل میں کہا۔ ’’میرے شہزادے! تم جا رہے ہو۔ نہ معلوم کہاں ! تم کیا جانو کہ تم یہاں کیا چھوڑ کر جا رہے ہو اور کیا کچھ اپنے ساتھ لے جاؤ گے۔ ان پہاڑوں، چراگاہوں، باغوں اور چشموں کی تمام دلچسپیاں اپنے ساتھ لے جاؤ گے اور اس ویرانے میں اپنی یاد چھوڑ جاؤ گے....شہزادے....میرے شہزادے.... نہیں نہیں۔ تم میرے نہیں۔ میں اس قابل نہیں۔‘‘یہ سوچ کر نرگس سسکیاں لینے لگی۔ پھر وہ کمرے کے اندر داخل ہوئی اور تھوڑی دیر بے حس و حرکت کھڑی نعیم کی طرف دیکھتی رہی۔
اچانک نعیم نے کروٹ بدلی۔ نرگس خوفزدہ ہو کر باہر نکلی اور دبے پاؤں اپنے کمرے میں جا کر بستر پر لیٹ گئی۔ ’’اف کتنی رات طویل ہے!‘‘ اس نے چند بار اٹھ اٹھ کر لیٹتے ہوئے کہا۔
علی الصباح ایک گڈریے نے اذان دی۔ نعیم بستر سے اٹھا اور وضو کے لیے چشمے پر پہنچا۔ نرگس پہلے سے وہاں موجود تھی۔ نرگس کی توقع کے خلاف نعیم اسے وہاں دیکھ کر زیادہ حیران نہ ہوا۔ اس نے کہا: ’’نرگس! تم آج بہت سویرے یہاں آ گئیں ؟‘‘
نرگس ہر روز نعیم کو ان درختوں کے پیچھے چھپ چھپ کر دیکھا کرتی تھی۔ آج وہ نعیم سے اس کی بے نیازی کا شکوہ کرنے کے لیے تیار ہو کر آئی تھی لیکن نعیم کے اس درجہ بے پروائی سے ہمکلام ہونے پر اس کے دل میں ولولوں کی آگ ٹھنڈی پڑ گئی۔ تاہم وہ ضبط نہ کر سکی۔ اس نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے کہا: ’’آج آپ چلے جائیں گے؟‘‘
’’ہاں ! نرگس مجھے یہاں آہوئے بہت دیر ہو گئی ہے۔ آپ نے میرے لیے بہت تکلیف اٹھائی ہے شاید میں شکریہ ادا نہ کر سکوں۔ خدا آپ لوگوں کو جزائے خیر دے !‘‘
نعیم یہ کہہ کر ایک پتھر پر بیٹھ گیا اور چشمے کے پانی سے وضو کرنے لگا۔ نرگس کچھ اور بھی کہنا چاہتی تھی لیکن نعیم کا طرز عمل حوصلہ افزا نہ تھا۔ دل کا طوفان یکسر ٹھنڈا ہو گیا۔ جب گاؤں کے باقی لوگ وضو کے لیے اس چشمے پر جمع ہونے لگے تو نرگس وہاں سے کھسک آئی۔
گاؤں کا بڑا خیمہ جس میں یہ لوگ اسلام لانے سے پہلے فرصت کے لمحات میں رقص و سرود میں گزارا کرتے تھے اب نماز کے لیے وقف تھا۔ نعیم وضو کرنے کے بعد اس خیمے میں داخل ہوا۔ گاؤں کے لوگوں کو نماز پڑھائی اور دعا کے بعد انہیں بتایا کہ میں جا رہا ہوں۔
نعیم اور ہومان ایک ساتھ خیمے سے باہر نکلے۔ مکان پر پہنچ کر نعیم اپنے کمرے میں داخل ہوا۔ ہومان نے نعیم کے ساتھ داخل ہوتے وقت اپنے پیچھے گاؤں کے لوگوں کو آتے دیکھا تو اندر جانے کی بجائے چند قدم واپس ہو کر ان کی طرف متوجہ ہو ا۔ ’’کیا وہ سچ مچ چلے جائیں گے؟‘‘ ایک بوڑھے نے سوال کیا۔
’’ہاں۔ مجھے افسوس ہے کہ وہ نہیں ٹھہریں گے۔ہومان نے جواب دیا۔
’’اگر ہم اصرار کریں تو بھی؟‘‘
’’تو شاید ٹھہر جائیں لیکن مجھے یقین نہیں۔ تاہم آپ انہیں ضرور مجبور کریں۔ وہ جس دن سے آئے ہیں، میں محسوس کر رہا ہوں کہ مجھے دنیا کی بادشاہت مل گئی ہے۔ آپ عمر میں مجھ سے بڑے ہیں۔ آپ ضرور کوشش کریں۔ شاید وہ آپ کا کہا مان لیں۔‘‘
نعیم زرہ بکتر اور اسلحہ سے آراستہ ہو کر باہر نکلا۔ گاؤں کے لوگوں نے اسے دیکھ کر ایک ساتھ شور مچانا شروع کیا۔’’ہم نہیں جانے دیں گے۔ ہم نہیں جانے دیں گے!‘‘
نعیم اپنے مخلص میزبانوں کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد ہاتھ بلند کیا۔ وہ تمام یکے بعد دیگرے خاموش ہو گئے۔
نعیم نے ایک مختصر سی تقریر کی:
’’برادران! اگر میں اپنے فرائض کی وجہ سے مجبور نہ ہوتا تو مجھے اس جگہ چند دن اور ٹھہر جانے پر اعتراض نہ ہوتا لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ جہاد ایک ایسا فرض ہے جسے کسی بھی حالت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ میں آپ کی محبت کا تہہ دل سے ممنون ہوں۔ امید ہے کہ آپ مجھے خوشی سے اجازت دے دیں گے۔‘‘
نعیم نے اپنی تقریر ابھی ختم نہ کی تھی کہ ایک چھوٹا سا لڑکا چلا اٹھا۔ ’’ہم نہیں جانے دیں گے!‘‘ نعیم نے آگے بڑھ کر کمسن بچے کو اٹھا لیا اور اسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔’’مجھے آپ لوگوں کے احسانات ہمیشہ یاد رہیں گے۔ اس بستی کا تصور مجھے ہمیشہ مسرور کرتا رہے گا۔ جب میں اس بستی میں آیا تھا تو ایک اجنبی تھا۔اب جبکہ چند ہفتوں کے بعد میں رخصت ہو رہا ہوں تو یہ محسوس کرتا ہوں کہ اپنے عزیز ترین بھائیوں سے جدا ہو رہا ہوں۔ اگر خدا نے چاہا تو ایک بار پھر میں یہاں آنے کی کوشش کروں گا۔‘‘
اس کے بعد نعیم نے ان لوگوں کو چند نصیحتیں کیں اور دعا کے بعد لوگوں سے مصافحہ کرنا شروع کیا۔
ہومان بھی دوسرے لوگوں کی طرح اپنی مرضی کے خلاف راضی ہو چکا تھا۔ وہ نعیم کے لیے اپنا خوبصورت سفید گھوڑا لے آیا اور نہایت خلوص کے ساتھ یہ تحفہ قبول کرنے کی درخواست کی۔
نعیم نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ ہومان اور گاؤں کے پندرہ نوجوانوں نے نعیم کے ساتھ جہاد پر جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ نعیم کے اس وعدے پر کہ وہ اپنے لشکر میں پہنچ کر ضرورت کے وقت انہیں بلا بھیجے گا۔ وہ مطمئن ہو کر ٹھہر گئے۔ نعیم نے رخصت ہونے سے پہلے ادھر ادھر دیکھا لیکن نرگس نظر نہ آئی۔ وہ اسے الوداع کہے بغیر رخصت نہیں ہونا چاہتا تھا لیکن اس وقت اس کے متعلق کسی سے سوال کرنا بھی مناسب نہ تھا۔
ہومان سے مصافحہ کرتے ہوئے نعیم نے عورتوں کے ہجوم پر سرسری نظر ڈالی۔ نرگس شاید اس کا مطلب سمجھ گئی اور ہجوم سے علیحدہ ہو کر نعیم سے کچھ دور کھڑی ہو گئی۔ نعیم گھوڑے پر سوار ہوا۔ اس نے نرگس کے چہرے پر الوداعی نگاہ ڈالی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ نرگس کی آنکھیں نعیم کی آنکھوں کے مقابلے میں نہ جھپکیں۔ وہ پتھر کی ایک مورتی کی طرح بے حس و حرکت کھڑی آنکھیں پھاڑ کر نعیم کی طرف دیکھ رہی تھی۔ نعیم درد کی اس شدت سے واقف نہ تھا جس سے آنکھوں کے آنسو بھی خشک ہو جاتے ہیں۔ وہ اس دلگداز منظر کی تاب نہ لا سکا۔ اس کا دل بھر آیا لیکن جانے سے ٹھہر جانا مشکل نظر آتا تھا۔ نعیم نے دوسری طرف منہ پھیر لیا۔ ہومان اور گاؤں کے چند آدمی کچھ دور اس کے ساتھ جانا چاہتے تھے۔ لیکن اس نے انہیں منع کیا اور گھوڑے کو ایڑ لگا دی۔
لوگ اونچے اونچے ٹیلوں پر چڑھ کر نعیم کی آخری جھلک دیکھ رہے تھے لیکن نرگس وہیں کھڑی رہی۔ اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کے پاؤں زمین کے ساتھ پیوست ہو چکے ہیں اور اس میں ہلنے کی طاقت نہیں رہی۔ اس کی چند سہیلیاں اس کے گرد جمع ہو گئیں۔ زمرد جو سب سے زیادہ بے تکلف اور ہم راز تھی، مغموم صورت بنائے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس نے گاؤں کی عورتوں کو جمع ہوتے دیکھ کر کہا:
’’تم یہاں کیا دیکھ رہی ہو؟ جاؤ اپنے اپنے گھر!‘‘
چند عورتیں وہاں سے کھسک گئیں مگر بعض وہیں کھڑی رہیں۔ زمرد نے نرگس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا: چلو نرگس!‘‘
نرگس نے چونک کر زمرد کی طرف دیکھا اور بغیر کچھ کہے زمرد کے ساتھ خیمے کے اندر داخل ہو گئی۔ وہ پوستین جسے نعیم اوڑھا کر تا تھا، وہیں پڑی ہوئی تھی۔ نرگس نے بیٹھتے ہوئے پوستین اٹھائی۔ اپنا چہرہ اس میں چھپا لیا۔ آنکھوں میں رکے ہوئے آنسو بہہ نکلے۔زمرد دیر تک اس کے پاس کھڑی رہی۔ بالآخر اس نے نرگس کا بازو پکڑ کر اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا۔’’نرگس! تم مایوس ہو گئیں۔ میں نے انہیں کئی دفعہ وعظ میں یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ ہمیں خدا کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ وہ مانگنے والوں کو ہر شے بخش سکتا ہے۔ اٹھو نرگس باہر چلیں ! وہ ضرور آئیں گے۔‘‘
نرگس آنسو پونچھتے ہوئے زمرد کے ساتھ باہر نکلی۔ بستی کی ہر چیز پر اداسی چھا رہی تھی۔
(جاری ہے)

کیا محض علم آ جانے سے ایمان کی کیفیت نصیب ہوتی ہے؟



کیا محض علم آ جانے سے ایمان کی کیفیت نصیب ہوتی ہے؟
جواب:
نہیں، کسی چیز کا محض علم آ جانے سے ایمان حاصل نہیں ہوتا، اگر ایمان علم ہی سے حاصل ہوتا تو کوئی ان پڑھ مومن نہ ہوتا اور نہ کوئی علم والا کافر ہوتا جیسا کہ ابو جہل اور اس کے ساتھی کہا کرتے تھے :
مِنَّا نَبِيٌّ يَأتِيْهِ الْوَحْيُ مِنَ السَّمَاءِ فَمَتَی نَدْرُکُ هَذِهِ؟ وَاﷲ لَا نُوْمِنْ بِه اَبَداً وَلَا نُصَدِّقُهُ.
ابن کثير، تفسير ابن کثير، 2 : 131
’’(ہم مانتے ہیں کہ محمد) ہم میں سے ہی نبی ہیں اور اس کی طرف آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے، پس ہم اس چیز کا انکار نہیں کرتے (مگر) اللہ کی قسم ہم اس پر کبھی بھی ایمان نہیں لائیں گے اور نہ ہی اس کی تصدیق کریں گے۔‘‘
پس واضح ہوا کہ علم اور ایمان دو الگ حقیقتیں ہیں، کبھی علم کے باوجود ایمان نہیں ہوتا اور کبھی علم کے بغیر بھی ایمان ہوتا ہے۔ ایمان کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ.
البقره، 2 : 3
’’جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔‘‘
اس سے ثابت ہوا کہ ایمان بن دیکھے ماننے کا نام ہے جبکہ علم دیکھ کر ماننے کا نام ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔


( تقلید کیا ھے ؟؟؟؟ نہایت مختصر تشریح )



( تقلید کیا ھے ؟؟؟؟ نہایت مختصر تشریح )                                                                                                       
آج کے دور میں رنگ برنگی پگڑی والے علماء اور مولوی سادہ لوح اور کم علم مسلمانوں کو آپنے آپنے فرقوں اور اندھی تقلید میں پھنسا کر رکھنا چاھتے ہیں ۔۔۔ اور ہماری سادہ دل مسلمانوں کی اکثریت یہ سمجھتی ھے کہ لفظ تقلید بھی شاید قرآن وسنت کی ہی کوئی دینی اصطلاح ھے ۔۔۔ نہیں جناب یہ صرف اور صرف فرقہ وارانہ اور مزھبی اصطلاح ھے اس کا دین اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ھے اگر ایک باشعور مسلمان حقیقی معنوں میں تقلید ۔۔۔ مقلد اور غیر مقلد کا کا معنی جان لے تو وہ ایسی تمام اصطلاحات سے کوسوں رھے گا ۔۔ بلکہ وہ دین اسلام کا ماخذ صرف اور صرف قرآن وسنت کو مانے گا ۔۔ اس کے لغوی معنی ؟؟ جی لفظ تقلید کا مادہ ( ق ل د ) سے ھے اس سی سے لفظ قلادہ ھے جو گلے کے پٹے کو کہتے ہیں ۔۔۔ اور عربی میں تقلید کو گلے میں پٹہ ڈالنا ھوتا ھے ۔۔۔ اور مقلد اس جانور کو کہتے ہیں جس کے گلے میں پٹہ ھو اور رسی کسی دوسرے کے ھاتھ میں ھو اور وہ اسے کھینچتا جائے اور جانور اس کے پیچھے اندھا دھند چلتا جائے ۔۔۔ چاھے وہ اس کو کہیں بھی لے جائے ۔۔۔ مزے کی بات یہ ھے کہ عربی زبان کی جدید اور قدیم لغات یہ ہی معنی بتاتی ھے ۔۔۔۔ اللہ ھم سب کو اندھی تقلید سے بچائے ۔۔۔ ھمیں ناصرف چاروں اماموں کو ماننا چاھئے بلکہ تمام ان نیک لوگوں اور سکالر جہنوں نے قرآن و سنت کی روشنی میں دین کے لئے کام کیا ان کا احترام کرنا چاھئے ۔۔۔۔ لیکن تقلید صرف اور صرف قرآن اور آقا دوجہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ھوگی ۔۔۔ ایک بات اور یہاں بتاتا چلوں چوتھی صدی ہجری تک مسلمانوں میں تقلید کا کوئی تصور نہیں تھا ۔۔




                                                        For More Updates: Click Here

جب خدا زمین پر اتر آیا



داستان ایمان فروشوں کی
جلد سوم
قسط نمبر 90
جب خدا زمین پر اتر آیا
مصر میں جہاں آج اسوان ڈیم ہے، آٹھ سو سال پہلے وہاں ایک خونریز معرکہ لڑا گیا تھا۔ مورخوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور کی اس لڑائی کا ذکر کیا ہی نہیں اگر کیا ہے تو اتنا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کا ایک جرنیل باغی ہوگیا تھا۔ قاضی بہائوالدین شداد نے اپنی ڈائری میں اس جرنیل کا نام بھی لکھا ہے۔ نام القنض تھا جس کا تلفظ القند ہے۔ وہ مصری مسلمان تھا۔ اس کی ماں سوڈانی تھی۔ شاید یہ سوڈانی خون تھا جس نے اسے سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف بغاوت پر اکسایا تھا۔ اس دور کے وقائع نگاروں اور کاتبوں کی غیر مطبوعہ تحریریں ملی ہیں، ان سے اس بغاوت کا پس منظر خاصی حد تک واضح ہوجاتا ہے۔
یہ ١١٧٤ء کے آخر اور ١١٧٥ء کے اوائل کا عرصہ تھا جب سلطان صلاح الدین ایوبی مصر سے غیرحاضر تھا۔ اس سے پہلے پوری تفصیل سے سنایا جاچکا ہے کہ نورالدین زنگی مرحوم کی وفات کے فوراً بعد شام کے حالات اس صورت میں بگڑ گئے تھے کہ مفادپرست امراء نے زنگی مرحوم کے گیارہ سالہ بیٹے کو سلطنت کی گدی پر بٹھا دیا اور صلیبیوں سے گٹھ جوڑ کرکے خود مختاری کے راستے پر چل پڑے تھے۔ سلطنت اسلامیہ ٹکڑے ٹکڑے ہوکر صلیبیوں کے پیٹ میں جارہی تھی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی دمشق پہنچا۔ تھوڑی سی معرکہ آرائی اور دمشق کے شہریوں کے تعاون سے اس نے دمشق پر قبضہ کرلیا۔ خلیفہ اور اس کے حواری امراء اور جرنیل حلب کو بھاگ گئے جہاں انہوں نے صلیبیوں سے جنگی مدد حاصل کی۔ صلیبیوں نے مدد کا جھانسہ دے کر مسلمان فوج کو مسلمان فوج سے ٹکرا دیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے حمص اور حماة کے قلعے سرکرلیے۔ حلب کے محاصرے میں اسے غیرمتوقع مزاحمت کا سامنا ہوا۔ اس کے ساتھ ہی تریپولی کے صلیبی حکمران ریمانڈ نے حملہ کردیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کو حلب کا محاصرہ اٹھا کر پیچھے آنا پڑا تاکہ صلیبی فوج کو راستے میں روکا جاسکے۔
سلطان صلاح الدین ایوبی کے دستوں کی برق رفتاری نے اس کی چال کو کامیاب کیا اور ریمانڈ لڑائی سے منہ پھیر گیا مگر یہاں لڑائی ختم نہیں ہوئی تھی۔ اصل جنگ تو یہیں سے شروع ہوئی تھی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی الرستان سلسلہ کوہ میں اپنی فوج کو پھیلائے ہوئے تھا۔ اس کا مقابلہ تین دشمنوں کے ساتھ تھا۔ ایک الصالح اور اس کے حواری امراء کی فوج تھی، دوسرے صلیبی فوج اور تیسرا موسم۔ یہ جنوری فروری ١١٧٥ء کے دن تھے جب پہاڑیوں کی چوٹیاں برف سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ یخ جھکڑ چلتے تھے اور وادیاں ٹھٹھر رہی تھیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی وہاں اس طرح الجھ گیا تھا جیسے زنجیروں میں جکڑا گیا ہو۔
مصر کے متعلق وہ مطمئن نہیں تھا۔ وہاں کی فوج کی کمان وہ اپنے بھائی العادل کے سپرد کرآیا تھا۔ اس فوج میں سے سلطان صلاح الدین ایوبی نے کمک بھی منگوالی تھی۔ مصر پر سمندر کی طرف سے صلیبیوں کا اور جنوب سے سوڈانیوں کے حملے کا خطرہ تو تھا لیکن زیادہ خطرہ صلیبیوں اور سوڈانیوں کی زمین دوز تخریب کاری کا تھا جو مصر میں جاری تھی۔ دشمن کی جاسوسی اور تخریب کاری کو بہت حد تک دبایا جاچکا تھا مگر یہ کہنا غلط تھا کہ دشمن اس زمین دوز میدان سے بھاگ گیا ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے انہی خطروں سے نبردآزما ہونے کے لیے اپنی انٹیلی جنس کے ماہر سربراہ علی بن سفیان کو قاہرہ میں رہنے دیا تھا۔ اس نے العادل کو بھی اس ضمن میں بہت سی ہدایات دے دی تھیں مگر جو جگہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی غیرحاضری سے خالی ہوگئی تھی۔ اسے العادل اور علی بن سفیان مل کر بھی پر نہیں کرسکتے تھے۔
مصر کی سرحدوں اور ساحل کی دیکھ بھال کے لیے سرحدی دستوں کی چوکیاں اور ان کے پہرے تھے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے العادل کے متعلق یہ حکم دے دیا تھا کہ سوڈانی سرحد پر ذرا سی بھی گڑ بڑ کریں تو شدید جنگی نوعیت کی جوابی کارروائی کرو اور سوڈان کے اندر جا کر لڑو… مگر ایک ضرورت ایسی تھی جس کی طرف کسی نے بھی توجہ نہ دی۔ یہ تھی سرحدی دستوں کی بدلی۔ ان دستوں میں بیشتر سپاہی اور بعض کمانڈر ایسے تھے جو دو سال سے زیادہ عرصہ سے سرحد کی ڈیوٹی پر تھے۔ یہ وہ سپاہی تھے جنہوں نے دشمن سے معرکے لڑے تھے لہٰذا ان کے دلوں میں دشمن کے خلاف نفرت بھری ہوئی تھی۔ سوڈانیوں کو تو وہ کچھ سمجھتے ہی نہیں تھے۔ ان سے پہلے جو دستے سرحد پر تھے وہ اچھے ثابت نہیں ہوئے تھے۔ ان کی موجودگی میں مصر کی منڈی سے اناج اور دیگر ضروری اشیاء سمگل ہوکر سوڈان چلی جاتی تھیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے محاذ سے واپس آکر ان دستوں کو بدل دیا اور وہ دستے بھیجے تھے جو محاذ سے آئے تھے۔ ان دستوں نے سرحد پر پہنچ کر اودھم بپا کردیا تھا۔ گشتی پہرے والوں کو کوئی چیز ہلتی نظر آتی تھی تو اسے جادبوچتے تھے۔ وہ تیز رفتار تھے اور ان کی نظریں عقابی تھیں۔ انہوں نے سرحد صحیح معنوں میں سربمہر اور مقفل کردی تھی۔
یہ دو اڑھائی سال پہلے کی بات تھی۔ ابتداء میں ان دستوں میں جوش اور جذبہ تھا اور کرنے کو ایک کام بھی تھا جو ایک مہم تھی۔ وہ جانفشانی سے اس میں مگن رہے۔ چند مہینوں میں ہی انہوں نے یہ مہم سرکرلی اور فارغ ہوگئے۔ یہ فراغت ان کے جذبے کو دیمک کی طرح کھانے لگی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی ہر پہلو، ہر گوشے اور ہر عنصر پر نظر رکھتا تھا لیکن سرحدی دستوں کی بدلی اتنی معمولی سی بات تھی جس پر وہ ذاتی توجہ نہ دے سکا۔ سرحدی دستوں کا شعبہ الگ تھا جس کا کمانڈر سالار (جرنیل) کے عہدے کا ایک فرد تھا ور یہ القند تھا۔ یہ اس کے فرائض میں شامل تھا کہ وہ سال میں تین بار نہیں تو دوبار سرحدی دستوں کی بدلی کرتارہتا۔ اس نے یہ بے حد ضروری کارروائی نہ کی۔ اس کوتاہی کے اثرات سامنے آنے لگے۔
سپاہی ایک ہی قسم کے ماحول اور فضا میں اور ایک ہی قسم کی زمین پر رہتے اور پہرے دیتے اکتاہٹ محسوس کرنے لگے۔ سوڈان خاموش تھا۔ سمگلنگ بند ہوچکی تھی۔ فراغت اور کاہلی سپاہیوں کی نفسیات پر تخریبی اثرات ڈال رہی تھی۔ اس کے لیے کام بھی نہیں تھا اور ان کے لیے تفریح بھی کوئی نہیں تھی۔ موسم میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آتی تھی۔ ریت کا سمندر اور ریت کے ٹیلے ایک ہی جیسے تھے جیسے صدیوں سے چلے آرہے تھے۔ آسمان کا رنگ ایک ہی جیسا رہتا تھا۔ اس کیفیت اور سپاہیوں کی اکتاہٹ کا پہلا اثر یہ دیکھنے میں آیا کہ وہ گشتی پہرے پر جاتے تو راہ جاتے مسافروں سے یہ پوچھنے کے بجائے کہ وہ کون ہیں اور کہاں جارہے ہیں اور ان کے پاس کیا ہے، وہ انہیں روک کر ان سے گپ شپ لگاتے اور ان سے ادھر ادھر کی باتیں پوچھتے۔ یہ دل بہلانے کا ایک ذریعہ تھا۔
جن چوکیوں کی ذمہ داری کے علاقے میں کوئی گائوں تھا، سپاہی وہاں چلے جاتے اور گپ بازی سے دل بہلا آتے۔ سرحد کے رکھوالوں کا یہ انداز ملک کے لیے خطرناک تھا مگر وہ سپاہی تھے اور اکتائے ہوئے بھی تھے۔ انسانی فطرت کا تقاضہ تھا کہ وہ کہیں نہ کہیں سے تسکین حاصل کرتے۔ وہاں آتے جاتے مسافر تھے، رات بھر کے لیے پڑائو کرنے والے قافلے تھے یا کہیں کوئی آباد گائوں تھا۔ وہ ہر کسی کے ساتھ گھل مل گئے۔ مصر کے سرحدی لوگوں پر ان کا جو ڈر تھا وہ دور ہوگیا۔ ان کے کمانڈر بھی سپاہیوں جیسے ہی انسان تھے۔ وہ بھی وقت گزارنے کے اور تفریح کے ذرائع ڈھونڈنے لگے تھے۔
٭ ٭ ٭
جب سلطان صلاح الدین ایوبی دمشق کے لیے روانہ ہونے لگا تو اتنی عجلت میں تھا کہ سرحدوں کے متعلق تمام تر ہدایات دینے کے باوجود اس کے ذہن میں یہ نہ آئی کہ پرانے دستوں کی بدلی کے احکام بھی دے دیتا۔ اسے غالباً اطمینان ہوگا کہ ان کا کمانڈر، القند تمام تر ضروریات پوری کرتا رہتا ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے جانے کے بعد العادل نے فوجوں کی کمان لی تو اس نے القند سے پوچھا کہ سرحد پر جو دستے ہیں وہ کب سے اس ڈیوٹی پر ہیں۔ القند نے جواب دیا کہ وہ بہت عرصے سے وہیں ہیں۔
''کیا سرحد پرمزید دستے بھیجنے کی ضرورت ہے؟'' العادل نے پوچھا… ''اور کیا پرانے دستوں کو قاہرہ بلا کر نئے دستے بھیجنے کی ضرورت ہے؟''
''نہیں'' القند نے جواب دیا… ''یہی وہ دستے ہیں جنہوں نے ملک سے اناج، مویشی اورہتھیار وغیرہ کے چوری چھپے باہر جانے کو روکا تھا۔ وہ اب سرحد اور ارگرد کے علاقوں کے عادی ہوگئے ہیں۔ وہ اب دور سے مشتبہ انسان کی بو سونگھ کر اسے پکڑ لیتے ہیں۔ ان کی جگہ اگر نئے دستے بھیجے گئے تو پرانے دستوں جیسا تجربہ حاصل کرتے انہیں ایک سال سے زیادہ عرصہ چاہیے۔ ہمیں ایسا خطرہ مول نہیں لینا چاہیے''۔
العادل اس جواب سے مطمئن ہوگیا تھا۔ اسے بتانے والا کوئی نہ تھا کہ یہی القند رات کو اپنے گھر میں بیٹھا کہہ رہا تھا۔ ''یہ سرحدی دستے بیکار ہوچکے ہیں، میری یہ کوشش کامیاب ہے کہ میں نے ان کی بدلی نہیں ہونے دی۔ انہوں نے سرحد کے لوگوں کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات پیدا کرلیے ہیں۔ ان کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ ان کے پیٹ تو بھرے رہتے ہیں، کھانے پینے کی انہیں کوئی شکایت نہیں، میں ان کے لیے ضرورت سے زیادہ خوراک بھیجتا ہوں لیکن ان کی حالت بھوکے بھیڑیوں کی سی ہوگئی ہے۔ کوئی قافلہ گزرتا ہے تو وہ قافلے والوں کی عورتوں کو منہ کھول کر دیکھتے رہتے ہیں۔ اب ہم اپنا کام کرسکتے ہیں''۔
وہ جس کے ساتھ باتیں کررہا تھا وہ کوئی سوڈانی تھا جو اس کے ہاں مہمان کے روپ میں آیا ہوا تھا۔ وہ سوڈان سے اس کے لیے تحفے لایا تھا اور ان تحفوں کے ساتھ ایک پیغام بھی تھا۔ اس نے القند کو بتایا تھا کہ سوڈانی تیار ہیں مگر نفری ابھی اتنی زیادہ نہیں ہوئی۔ یہ آدمی پیغام لے کر آیا تھا کہ اس نفری کو کسی طرح مصر میں داخل کرکے چھپا لیا جائے۔ اس کے لیے پہلی مشکل یہ تھی کہ انہیں سرحد پار کس طرح کرائی جائے۔ اسی کے جواب میں القند نے کہا تھا کہ مصر کے سرحدی دستے بیکار ہوچکے ہیں… القند ان چند ایک سالاروں میں سے تھا جن پر سلطان صلاح الدین ایوبی کو بھروسہ تھا۔ القند نے کبھی شک بھی نہیں ہونے دیا تھا کہ وہ مصر کی امارت کا وفادار نہیں۔علی بن سفیان تک کو اس نے دھوکے میں رکھا ہوا تھا۔ اس کا یہ کارنامہ کہ اس نے دو اڑھائی سال پہلے سمگلنگ روک دی اور سرحدیں سربمہر کردی تھیں۔ اسے بہت فائدہ دے رہا تھا۔ کوئی بھی نہ جان سکا کہ وہ سرحدوں کا بھیدی بن چکا ہے۔
اب سلطان صلاح الدین ایوبی مصر سے چلا گیا تو القند نے العادل کو یقین دلا دیا کہ وہ سوڈان کی طرف سے بے فکر ہوجائے۔ سوڈان کا کوئی پرندہ بھی مصر میں داخل نہیں ہوسکتا۔ ایسا ہی یقین وہ علی بن سفیان کو بھی دلاتا رہا اور سوڈان میں حبشیوں کی ایک فوج مصر پر اس انداز سے حملہ کرنے کے لیے تیار ہوتی رہی کہ حبشی چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میںمصر میں داخل ہوں گے، چوری چھپے قاہرہ کے قریب جائیں گے اور ایک رات حملہ کرکے رات ہی رات مصر کی امارات کو قبضے میں لے لیں گے۔
٭ ٭ ٭
دریائے نیل سوڈان سے گزرتا مصر میں داخل ہوتا ہے۔ آگے مصر کے علاقے میں ایک وسیع جھیل کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ اس کے آگے ایسے علاقے میں داخل ہوتا ہے جو پہاڑی ہے۔ اس سے آگے آبشار کی طرح گرتا ہے۔ اس کے قریب اسوان ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور میں اسوان کے گردونواح کی جغرافیائی کیفیت کچھ اور تھی۔ دور دور تک چٹانیں اور پہاڑیاں تھیں۔ ان پر فرعونوں کی خصوصی نظر کرم رہی تھی۔ انہوں نے پہاڑوں کو تراش تراش کر بت بتائے تھے۔ ان میں سب سے بڑے بت ابو سمبل کے تھے۔ بعض چٹانوں کی چوٹیاں تراش کر کسی معبدے گنبد کی شکل کی یا کسی فرعون کا چہرہ بنا دی گئی تھیں۔ پہاڑیوں کے دامن میں غاریں بنائی گئی تھیں جو اندر سے وسیع وعریض تھیں۔ کچھ ایسی تھیں جن کے اندر کمرے، سرنگوں جیسے راستے اور بھول بھلیاں سی بنا دی گئی تھیں۔
کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ فرعونوں نے یہ پراسرار سی دنیا کیوں آباد کی تھی۔ یہ بت تراشتے اور غاریں کھود کر اندر کمرے وغیرہ بناتے تین نسلیں ختم ہوگئی ہوں گی۔ فرعون اس دور کے ''خدا'' تھے۔ رعایا کا کام صرف یہ تھا کہ ان کے آگے سجدے کرے اور ان کا ہر حکم بجا لائے۔ یہ پہاڑ اسی مظلوم اور فاقہ کش رعایا سے کٹوائے گئے تھے۔ آج وہاں کوئی بت نہیں، کوئی غار نہیں، کوئی پہاڑ نہیں۔ وہاں اسوان ڈیم کی میل ہا میل وسیع جھیل ہے۔ اس ڈیم کی تعمیر سے پہلے ابوسمبل کے اتنے بڑے بڑے بت جو بجائے خود پہاڑ تھے مشینری سے وہاں سے اٹھائے گئے اور فرعونوں کے دور کی یادگاروں کے طور پر کہیں محفوظ کرلیے گئے ہیں۔ ڈائنامیٹ سے پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرکے زمین بوس کردیا گیا تھا۔ اگر فرعون انسان کے ہاتھوں پہاڑوں کو یوں اڑاتا اور زمین سے ملتا دیکھتے تو خدائی کے دعوے سے دستبردار ہوجاتے۔
سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور میں اس علاقے کے خدوخال کچھ اور تھے۔ ان پہاڑوں کی وادیوں اور غاروں میں ساری دنیا کی فوج کو چھپایا جاسکتا تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے ذاتی طور پر سرحد کے اس علاقے پر زیادہ توجہ دی تھی جہاں سے دریائے نیل مصر میں داخل ہوتا تھا۔ سوڈانی کشتیوں کے دریعے مصر میں داخل ہوسکتے تھے۔ اس دریائی راستے پر نظر رکھنے کے لیے ایک چوکی قائم کی گئی تھی جو دریا سے دور تھی۔ چوکی سے دریا نظر نہیں آتا تھا اور دریا سے چوکی نظر نہیں آتی تھی۔ یہ فاصلہ دانستہ رکھا گیا تھا تاکہ دریا سے چوری چھپے گزرنے والے اس خوش فہمی میں مبتلا رہیں کہ انہیں دیکھنے اور پکڑنے والا کوئی نہیں۔ دریا پر گشتی پہرے کے ذریعے نظر رکھی جاتی تھی۔ دو گھوڑ سوار ہر وقت گشت پر رہتے تھے اور ان کی ڈیوٹی بدلتی رہتی تھی۔
مصر سے سلطان صلاح الدین ایوبی کی غیر حاضری کے دنوںکا واقعہ ہے کہ دن کے وقت دریا کی دیکھ بھال والی سرحدی چوکی کے دو گھوڑ سوار گشت پر نکلے اور معمول کے مطابق دور تک نکل گئے۔ ایک جگہ دریا کے کنارے سبزہ زار تھا۔ سایہ دار درخت تھے اور یہ جگہ بہت ہی خوبصورت تھی۔ گشت والے سنتری اس جگہ آکر آرام کیا کرتے تھے۔ ایک عرصہ سے انہوں نے کسی سوڈانی کو دریا سے آتے نہیں دیکھا تھا۔ ابتداء میں انہوں نے بہت سے آدمی پکڑے تھے جن میں بعض تخریب کار اور جاسوس تھے۔ اس کے بعد یہ دریائی راستہ ویران ہوگیا تھا۔ اب سنتری صرف ڈیوٹی پوری کرنے آتے اور چوکی کی نظروں سے اوجھل ہوکر بیٹھ جاتے تھے۔
ان دوسواروں کا بھی ہی یہ معمول تھا۔ اس معمول سے اب وہ تنگ آگئے تھے۔ دریا کے کنارے اتنی سرسبز جگہ بھی انہیں اچھی نہیں لگتی تھی۔ ہر روز دریا کو دیکھ دیکھ کر وہ اس کے حسن سے اکتا گئے تھے۔ یہاں انہیں باہر کی دنیا کی اگر کوئی چیز نظر آتی بھی تھی تو وہ صحرائی لومڑی تھی جو دریا سے پانی پیتی اور سنتریوں کو دیکھ کر بھاگ جاتی تھی یا ماہی گیروں کی ایک آدھ کشتی نظر آتی تھی۔ وہ ماہی گیروں سے پوچھتے کہ وہ کہاں کے رہنے والے ہیں۔ پھر انہوں نے یہ پوچھنا بھی بھی چھوڑ دیا تھا اور اس کے بعد ماہی گیروں نے بھی وہاں جانا چھوڑ دیا تھا… اس رورز وہ سنتری گشت کے علاقے میں گئے تو وہ اکتائی ہوئی سی باتیں کررہے تھے۔ جن کا لب لباب یہ تھا کہ اس کے ساتھی قاہرہ، سکندریہ اور دوسرے شہروں میں عیش کررہے ہیں اور وہ اس جنگل بیابان میں پڑے ہیں۔ ان کے لب ولہجے میں احتجاج تھا اور بے اطمینانی بھی۔
وہ اس سرسبز جگہ سے کچھ دور تھے تو انہیں وہاں چار پانچ اونٹ بندھے ہوئے نظر آئے۔ آٹھ دس آدمی بیٹھے ہوئے تھے اور چار آدمی دریا میں نہا رہے تھے۔ دونوں سوار آگے چلے گئے مگر رک گئے۔ وہ کوئی انسان نہیں ہوسکتے تھے۔ انہیں جس چیز نے حیرت سے زیادہ خوف میں مبتلا کردیا تھا وہ یہ تھی کہ دریا میں چار آدمی نہیں بلکہ چار جوان لڑکیاں نہا رہی تھیں۔ انہوں نے ستر باریک کپڑوں سے ڈھانپے ہوئے تھے، وہ دریا میں اس جگہ ڈبکیاں لگا رہی تھیں جہاں پانی ان کی کمر تک تھا۔ ان کے جسموں کے رنگ مصریوں کی نسبت زیادہ ستھرے اور جاذب تھے۔ وہ قہقہے لگارہی تھیں، گھوڑ سوار یہ سمجھ کر ڈر گئے کہ یہ جل پریاں ہیں یا آسمان سے اتاری ہوئی پریاں یا فرعونوں کی شہزادیوں کی بدروحیں وہ دونوں رکے رہے اور انہیں دیکھتے رہے۔ انہوں نے وہیں سے واپسی کا ارادہ کرلیا لیکن جو آدمی بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے ان کی طرف دیکھا۔
دو آدمی اٹھ کر ان کی طرف آئے۔ لڑکیوں نے بھی انہیں دیکھ لیا تھا۔ وہ چاروں دریا سے نکل کر کنارے کی خشک اوٹ میں چلی گئیں۔ گھوڑ سواروں کا خوف ذرا کم ہوا۔ وہ آخر فوجی تھے۔ قریب جاکر انہوں نے ان دو آدمیوں سے پوچھا کہ وہ کون ہیں اور یہاں کیا کررہے ہیں۔ دونوں آدمیوں نے جھک کر سلام کیا۔ وہ صحرائی لباس میں تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ قاہرہ کے تاجر ہیں، بہت سے سرحدی دیہات میں مال فروخت کرکے واپس جارہے ہیں۔
''قاہرہ جانے کا یہ راستہ تو نہیں''۔ ایک سوار نے کہا۔
''لڑکیوں کا شوق ہے کہ دریا کے کنارے کنارے جائیں گے''۔ ایک نے جواب دیا… ''ہم اپنے کام سے فارغ ہوگئے ہیں، واپسی کی کوئی جلدی نہیں۔ دو تین راتیں یہیں قیام کریں گے… اگر آپ کو شک ہو تو چل کر ہمارا سامان دیکھ لیں۔ ہمارے پاس بہت ساری رقم ہے۔ وہ بھی دیکھ لیں، تاکہ آپ کو یقین ہوجائے کہ ہم واقعی مصر کے تاجر ہیں''۔
دونوں گھوڑ سوار ان کے ساتھ چل پڑے اور قیام کی جگہ پہنچے تو سب اٹھ کھڑے ہوئے۔ سب نے جھک کر سلام کیا پھر دونوں کے ساتھ مصافحہ کیا۔ ایک آدمی نے پوچھا کہ وہ ان کا سامان نہیں دیکھیں گے؟ گھوڑ سوار سنتری گھوڑوں سے اتر چکے تھے۔ انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا کہ وہ سامان نہیں دیکھیں گے۔ ایک آدمی نے سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج کی تعریفیں شروع کردیں۔ پھر انہوں نے ان دونوں کی جوانی، دلیری اور فرض کی تعریفیں کیں۔ا نہوں نے ایسی کوئی بات نہ کی جس سے ان دونوں کو کوئی شک ہوتا۔ اس دوران چاروں لڑکیاں کپڑے پہن کر اور بال جھاڑ کر آگئی تھیں لیکن وہ شرمائی شرمائی سی پرے ہٹ کر کھڑی رہیں۔ اس ویرانے میں ان سپاہیوں نے دو اڑھائی سال بعد باہر کے چند آدمیوں کی محفل دیکھی اور انہیں عورت ذات نظر آئی۔ ان لڑکیوں میں انہوں نے عورت کا ہر ایک روپ دیکھا… ماں، بہن، بیوی اور وہ عورت بھی جو ماں ہوتی ہے نہ بہن نہ بیوی… دونوں کی نظریں ان لڑکیوں نے گرفتار کرلیں۔ لڑکیاں انہیں دیکھ دیکھ کر شرماتی اور منہ چھپا کر مسکراتی تھیں۔ ان کے شرم وحجاب سے پتا چلتا تھا کہ یہ سب اچھے خاندان کے لوگ ہیں۔
یہ دونوں سرحدی سپاہی ان آدمیوں کی باتوں اور خصوصاً لڑکیوںمیں ایسے محو ہوئے کہ اپنی ڈیوٹی بھول گئے۔ سرحدی علاقے میں اتنی مدت سے پڑے رہنے اور فارغ ہونے کے جو برے اثرات تھے، وہ بڑی خطرناک نفسیاتی تشنگی بن کر ان پر غالب آگئے۔ ایک آدمی دریا کے کنارے برچھی لیے کھڑا مچھلیاں پکڑ رہا تھا۔ وہ پانی پر دانے سے پھینکتا تھا۔ مچھلیاں اوپر آجاتی تھیں، وہ اوپر سے برچھی مارتا تو ایک مچھی برچھی کی انی میں پروئی ہوئی باہر آجاتی۔ وہ بہت سی مچھلیاں پکڑ چکا تھا۔ کسی نے لڑکیوں سے کہا کہ وہ مچھلیاں بھونیں۔ چاروں 
لڑکیاں دوڑی گئیں۔ انہوں نے آگ جلائی اور مچھلیوں کو کاٹ کر آگ پر رکھ دیا۔


Thank You For Reading
For more updates Stay tuned with us : Visit http://www.amadahmad.blogspot.com

Angela Merkel


Bitter Truth


Salah is the first thing you will be questioned about, so do not make it the last thing on your mind.


Young Generation




"صاحب جی! جب درخت جوان ہو تو میں، بوڑھا آدمی اس کی کانٹ چھانٹ نہیں کرسکتا۔"
مالی بابا نے ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے کہا۔
"جب پودا نازک ہو، تب ہی اس کی شاخیں تراشنا آسان ہوتا ہے۔ پیچھے تنے پر کوئی نشان تک نظر نہیں آتا۔"
مالی بابا نے اپنا فلسفہ بیان کرتے ہوئے کہا۔
"ٹھیک ہے کرمو بابا! لیکن اس بات کا میرے مسئلے سے کیا تعلق؟"
میں نے کچھ اکتاہٹ سے سوال کیا۔
اچھا ٹھہریں! پہلے میں آپ کو اپنا تعارف کروادوں، میرا نام ارمغان عالم ہے، شہر میں اچھی نوکری ہے، مسئلہ یہ ہے کہ میرا بیٹا خالد ارمغان میری بات نہیں مانتا اور سنی ان سنی کردیتا ہے، عمر اس کی سولہ سال کے لگ بھگ ہے۔لان میں کھڑا تھا کہ وہ مالی بابا کے سامنے مجھ سے بدتمیزی کرتا ہوا باہر چلا گیا۔
"مالی بابا! خالد کو میں نے کیا نہیں دیا؟ اچھا کھانا پینا پہننا، اچھی تعلیم، ہر سہولت دی ہے اسے میں نے۔"
میں نے اپنی بات جاری رکھی۔
"صاحب! پودا جب چھوٹا ہوتا ہے تو اسے کھاد، پانی کے ساتھ ساتھ تراش خراش اور تیز ہوا، دھوپ سے بھی بچاؤ کی ضرورت ہوتی ہے۔"
"آپ نے خالد صاحب کو کھاد اور پانی تو خوب دیا لیکن ان کی تراش خراش سے بے پرواہ رہے۔"
"ادھر آئیں صاحب!"
مالی بابا مجھے ایک درخت کے پاس لے گیا جس کا تنا بالکل سیدھا اور خوبصورت تھا۔
"دیکھیں! اس تنے کی خوبصورتی کا تعلق اس کانٹ چھانٹ کے عمل سے ہے جو میں اس کے بچپن میں کرتا تھا۔ جو شاخ اس کے تنے پر اگتی، اسے پیار سے ہٹا دیتا۔ اور آج دیکھیں، اس کا تنا کتنا سیدھا اور خوبصورت ہے۔"
مالی بابا نے اپنا تجربہ پیش کرتے ہوئے کہا۔
"صاحب جی! آپ میری بات سمجھ رہے ہیں؟"
مالی بابا نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔
"جی جی! آپ بات کرتے رہیں۔"
میں نے فوراً کہا۔
"بچے بھی نازک پودے کی مانند ہوتے ہیں، دس، بارہ سال کا وقت محض کھاد پانی کا نہیں، بلکہ تراش خراش اور کانٹ چھانٹ کا بھی ہے، ساتھ ساتھ ماحول کی تیز دھوپ اور تیز ہوا سے بھی انھیں بچانا ہے۔"
"اور اور۔۔۔۔
اگر یہ کام ہم بارہ تیرہ سال کے بعد شروع کریں گے تو تنے پر اس کے نشان ثبت ہوں گے اور درخت اپنی خوبصورتی کھو بیٹھے گا۔"
مالی بابا نے اپنی بات مکمل کی۔
"جی مالی بابا! اب تو خالد سولہ سال کا ہوگیا ہے، اب کیا کروں؟"
میں اپنے موجودہ مسئلے کا حل چاہتا تھا۔
"اسے اپنے آپ سے مانوس کریں، جب وہ آپ کے سامنے آئے تو ہنس کر بات شروع کریں۔ وہ جب گھر آتا ہے، آپ سے ڈر کر فوراً اپنے کمرے میں چلا جاتا ہے۔ جو خرابی سولہ سال میں پیدا ہوئی ہے، اسے سولہ دن میں ختم کرنے کی کوشش نہ کریں ورنہ تنا چٹخ جائے گا۔"
مالی بابا کیسی تجربے کی بات کررہے تھے۔
"جب بھی بات کریں، پہلے اس کی خوبیوں کی بھی تعریف کریں، پھر ایک آدھ مختصر ہلکا پھلکا جملہ نصیحت کا بول کر اسے طول نہ دیں اور گفتگو کا خاتمہ بھی مسکراہٹ کے ساتھ کریں۔"
"صاحب جی! مٹی کی گوڈی آہستہ آہستہ لیکن مسلسل کی جاتی ہے، تب جاکر زرخیز مٹی باہر نکلتی ہے۔"
مالی بابا کی بات نے میرے سر کے اوپر سے بوجھ اتار پھینکا تھا۔
اتنے میں خالد گھر میں داخل ہوا، اور سلام کرکے تیزی سے کمرے میں جانے لگا۔
"خالد بیٹا! آپ کی طبیعت کل کچھ خراب تھی، اب کیسی ہے؟"
میں نے مسکراتے ہوئے سوال کیا۔
"جی ابو! اب بہتر ہے۔"
خالد نے حیرت سے مجھے دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
"بیٹا! اپنا خیال رکھا کرو۔"
میں نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
اور میں مالی بابا کا دیا ہوا سبق سیکھ چکا تھا 
کہ
سولہ سال کی خرابی، سولہ دن میں ٹھیک نہیں ہوسکتی
اور
آہستہ آہستہ لیکن مسلسل کی ہوئی گوڈی ہی زرخیز مٹی باہر نکالتی ہے۔
میں نے کہی پڑھا تھے !
'' یتیم وہ بچہ نہیں ہے جسے اسکے والدین دنیا میں‌تنہا چھوڑ گئے ہوں، 
اصل یتیم تو وہ ہیں جن کی ماؤں کو تربیت اولاد سے دلچسپی نہیں ہے اور باپ کے پاس انکو دینے کے لیے وقت نہیں۔“
بچوں کو برائیوں کے سیلاب سے بچانے کے لیے موجودہ دور کی عورت کو خصوصا“ 
اپنے اوقات کار،گھر کے نظام،بچوں کی دلچسپی اور اپنی لا پروائیوں پر توجہ دینی ہوگی اور اس ثقافتی یلغار کا مقابلہ اسلامی رنگ کو اپنا کر ہی کیا جا سکے گا۔ 
رنگ اسی کپڑے پر اچھا چڑھتا ہے جس کا اپنا کوئی رنگ نہ ہو،
اپنی اولاد اور گھر کے افراد کا اور رنگوں سے نکال کر صبغت اللہ میں ‌رنگنا ہی اس چیلنج کا مقابلہ کرنا کے لیے کافی ہو گا۔ انشاءاللہ

Teach your kids Qur'an and Qur'an will teach them everything.


Stay With Us: Amad Ahmad 

When facing any hardship, trust in Allah and be patient. For surely with every hardship comes ease.



Success is from Allah alone, so go towards Allah, and Allah will bring you closer to success.

بت گری پیشہ کیا‘ بت شکنی کو چھوڑا


Ibbat Wo hain jo Mabood ko manzoor ho jaye warna...


The Quran was sent to benefit humankind, not as decoration for our houses. Read it, understand it, immerse yourself in its beauty, apply it and teach it to others